إِذْ يُوحِي رَبُّكَ إِلَى الْمَلَائِكَةِ أَنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوا ۚ سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْنَاقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ
اس وقت کو یاد کرو جب کہ آپ کا رب فرشتوں کو حکم دیتا تھا کہ میں تمہارا ساتھی ہوں سو تم ایمان والوں کی ہمت بڑھاؤ میں ابھی کفار کے قلوب میں رعب ڈالے دیتا ہوں (١) سو تم گردنوں پر مارو اور ان کے پور پور کو مارو (٢)
[١٣] مسلمانوں کی قدرتی وسائل سے امداد :۔ اب یہاں سے ان قدرتی اسباب کا ذکر شروع ہوتا ہے جو بالآخر مسلمانوں کی فتح کا سبب بنے تھے اور یہ اسباب چار تھے۔ بالفاظ دیگر اس جنگ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی چار طرح سے مدد فرمائی تھی اور اس ذکر سے اس طرف بھی اشارہ کرنا مقصود ہے کہ جب اس جنگ میں فتح کے قدرتی اسباب کا بہت زیادہ عمل دخل ہے تو پھر تم مال غنیمت پر تنازعہ اور قبضہ کیسے کرسکتے ہو۔ یہ تو محض اللہ کی مدد سے تمہیں میسر آیا ہے۔ لہٰذا یہ مال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی ہونا چاہیے۔ اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے چاہے اسے تقسیم کرے گا۔ ہوا یہ تھا کہ میدان بدر میں مسلمانوں کے پہنچنے سے پہلے کافر پہنچ کر ایک پکی زمین پر اپنا پڑاؤ ڈال چکے تھے اور جو جگہ مسلمانوں کو پڑاؤ کے لیے میسر آئی ریتلی تھی۔ بلندی پر واقع تھی اور وہاں پانی نام کو نہ تھا اس کے بجائے گرد و غبار اڑ رہا تھا۔ مسلمانون کو ایک تو پیاس نے ستایا ہوا تھا، دوسرے وضو اور طہارت کے لیے بھی پانی نہیں مل رہا تھا۔ تیسرے سامنے کافروں کے مسلح لشکر جرار کو دیکھ کر سخت گھبراہٹ میں مبتلا تھے اور شیطان طرح طرح کے وسوسے ان کے دلوں میں ڈال رہا تھا کہ تمہیں خوراک تو درکنار پینے کو پانی بھی میسر نہیں پھر بھلا تم اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ کیسے کرسکو گے؟ اس حال میں اللہ کی مدد یوں مسلمانوں کے شامل حال ہوئی کہ رات کو زور سے بارش ہوئی جس کے تین فائدے ہوئے (١) مسلمانوں نے بڑے بڑے حوض بنا کر پانی جمع کرلیا۔ انہیں پینے اور نہانے دھونے کے لیے پانی میسر آ گیا (٢) نیچے سے ریت جم گئی، جہاں پہلے قدم پھسلتے جاتے تھے وہاں جمنے شروع ہوگئے اس طرح وہ سب شیطانی وساوس دور ہوگئے جو شیطان مسلمانوں کے دلوں میں ڈال رہا تھا۔ (٣) یہی پانی کا ریلا جب بہہ کر کفار کے لشکر کی طرف گیا تو وہاں کیچڑ اور پھسلن پیدا ہوگئی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مدد کی پہلی صورت تھی۔ دوسری صورت یہ تھی کہ جنگ کی ابتداء میں ہی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر غنودگی طاری کردی، جس کا اثر یہ ہوا کہ ایک تو بدن سے تھکاوٹ دور ہوگئی۔ دوسرے کافروں کی جو ہیبت ذہنوں پر سوار تھی وہ دور ہوگئی۔ تازہ دم اور تازہ دماغ ہونے کی وجہ سے ان میں چستی پیدا ہوگئی۔ چنانچہ جب آپ خود ساری رات عریش میں اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد اور آہ و زاری کرنے کے بعد سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی درخواست پر باہر نکلے تو اس وقت غنودگی کی کیفیت طاری ہوگئی اور جب اس حالت سے سنبھلے تو آپ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور آپ یہ آیت تلاوت فرما رہے تھے :۔ ﴿اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ﴾ ﴿ سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ﴾ (بخاری، کتاب الجہاد باب ماقیل فی درع النبی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے بڑے کافروں کے قتل ہوجانے کی خبر دی اور ان کے قتل کی جگہیں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو دکھلادیں۔ تیسری صورت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے میدان بدر میں مسلمانوں کی مدد کے لیے فرشتوں کا لشکر بھیج دیا جیسا کہ اوپر کے حاشیہ میں درج شدہ احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ جن کافروں کی موت فرشتوں کے ہاتھوں واقع ہوتی ہم اس لاش کو پوری طرح پہچان لیتے تھے۔ فرشتوں کی آمد سے جہاں مسلمانوں کے دلوں کو ثبات و قرار حاصل ہوا وہاں کافر سخت بد دل اور مرعوب ہوگئے اور چوتھی صورت کا ذکر آگے آ رہا ہے۔