يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ ۖ قُلِ الْأَنفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۖ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
یہ لوگ آپ سے غنیمتوں کا حکم دریافت کرتے ہیں (١) آپ فرما دیجئے! کہ غنیمتیں اللہ کی ہیں اور رسول کی ہیں (٢) سو تم اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی تعلقات کی اصلاح کرو اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم ایمان والے ہو (٣)۔
[١] انفال سے مراد کون سے اموال ہیں؟:۔ اموال زائدہ یا انفال سے مراد وہ اموال ہیں جو کسی کی محنت کا صلہ نہ ہوں بلکہ اللہ نے محض اپنے فضل و کرم سے عطا کئے ہوں اور ان کی کئی اقسام ہیں مثلاً (١) اموال غنیمت جو اگرچہ مجاہدین کی محنت کا صلہ معلوم ہوتا ہے۔ تاہم اسے اس لیے انفال میں شمار کیا گیا کہ پہلی امتوں پر غنیمت کے اموال حرام تھے۔ ایسے سب اموال ایک میدان میں اکٹھے کردیئے جاتے پھر رات کو آگ اتر کر ان کو بھسم کردیتی تھی۔ مگر اس امت پر حلال کی گئی ہے (٢) اموال فے یعنی ایسے اموال جو لڑے بھڑے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ لگ جائیں (٣) اموال سلب یعنی وہ مال جو ایک مجاہد مقتول دشمن کے جسم سے اتارتا ہے (٤) دیگر اموال جیسے جزیہ، صدقات اور عطیات وغیرہ۔ یہ سب انفال کے ضمن میں آتے ہیں۔ [ ٢] سورۃ انفال کا شان نزول، غزوہ بدر اور اموال غنیمت میں جھگڑا :۔ غزوہ بدر کے اختتام پر یہ صورت پیدا ہوئی کہ جس فریق نے اموال غنیمت لوٹے تھے وہ ان پر قابض ہوگیا تھا۔ ایک دوسرا فریق جس نے کفار کا تعاقب کیا تھا یہ کہتا تھا کہ ہم بھی ان اموال میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ اگر ہم کفار کا تعاقب نہ کرتے تو وہ مڑ کر حملہ کرسکتے تھے اور اس طرح فتح شکست میں تبدیل ہو سکتی تھی اور ایک تیسرا فریق جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد حفاظت کی خاطر حصار بنائے ہوئے تھا وہ کہتا تھا کہ ہم بھی ان اموال میں برابر کے حصہ دار ہیں کیونکہ اگر ہم آپ کی حفاظت نہ کرتے اور خدانخواستہ آپ کو کوئی گزند پہنچ جاتا تو فتح شکست میں بدل سکتی تھی۔ مگر قابضین ایسی باتیں قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ جس سے ان مجاہدین میں کشیدگی پیدا ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس صورت حال کا حل دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے اور وحی الٰہی کا انتظار کرنے لگے۔ اس وقت یہ آیت بلکہ اس سورۃ کا کثیر حصہ نازل ہوا۔ جس کی ابتدا ہی مسلمانوں کی اخلاقی کمزوریوں اور ان کی اصلاح کے طریقوں سے کی گئی ہے۔ [ ٣] اموال غنیمت اللہ اور اس کے رسول کے لئے کیوں؟:۔ اموال غنیمت وغیرہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے دو ٹوک فیصلہ دے دیا کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔ لہٰذا تمہیں اس میں جھگڑا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان اموال کے متعلق جو فیصلہ کرے گا وہی تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بدر کے دن میں ایک تلوار لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ! اللہ نے مشرکین (کو قتل کرنے) سے میرا سینہ ٹھنڈا کردیا۔ یا کچھ ایسے ہی الفاظ کہے اور کہا کہ یہ تلوار آپ مجھے ہی دے دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یہ تلوار میری ہے نہ تیری ہے۔‘‘ میں نے (دل میں) کہا : ہوسکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تلوار کسی ایسے آدمی کو دے دیں۔ جس نے مجھ جیسی محنت نہ کی ہو، پھر میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قاصد آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کہا کہ : تو نے مجھ سے تلوار مانگی تھی۔ اس وقت وہ میری نہ تھی اور اب مجھے اختیار دیا گیا ہے۔ لہٰذا وہ تمہیں دیتا ہوں۔ اس وقت یہ آیت اتری۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر، مسلم، کتاب الجہادوالسیہ، باب الانفال) اور اموال غنیمت کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق قرار دینے کی وجہ یہ تھی کہ غزوہ بدر میں مسلمانوں کو فتح خالصتاً اللہ کی مدد اور مہربانی سے حاصل ہوئی تھی۔ جیسا کہ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔ پھر اسی سورۃ کی آیت نمبر ٤١ کی رو سے اموال غنیمت میں پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مقرر کیا گیا اور باقی ٥؍٤ مجاہدین میں برابر تقسیم کا حکم دیا گیا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ نے مال غنیمت ہمارے ہاتھوں سے نکال کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اختیار میں دے دیا۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو برابر تقسیم کردیا (حاکم، کتاب التفسیر) رہے اموال فئ، اموال سلب اور متفرق اموال تو ان کے الگ الگ احکام ہیں جو اپنے اپنے موقعہ پر بیان ہوں گے۔ [ ٤] یعنی اموال غنیمت کے جھگڑے میں پڑ کر اپنے تعلقات خراب نہ کرلو۔ بلکہ اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کے حکم کو تسلیم کرو اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان اموال کو جس طرح تقسیم کرے اسے قبول کرو اور ہر کام میں اس کی اطاعت کو اپنا شعار بنا لو اور اگر تم فی الواقع اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھتے ہو تو تمہیں برضا و رغبت ان احکام کو تسلیم کرلینا چاہیے۔