وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو (١)۔
[٢٠٢] قرآن کا سننا باعث رحمت ہے :۔ مشرکین مکہ نے جیسے مسلمانوں پر یہ پابندی عائد کر رکھی تھی کہ وہ بیت اللہ میں داخل ہو کر نہ نماز ادا کرسکتے ہیں اور نہ طواف کرسکتے ہیں۔ اسی طرح یہ پابندی بھی لگا رکھی تھی کہ مسلمان نماز میں قرآن بلند آواز سے نہ پڑھا کریں کیونکہ اس طرح ان کے بچے اور ان کی عورتیں قرآن سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ دوسرے انہوں نے آپس میں سمجھوتہ کر رکھا تھا کہ ہم میں سے کوئی شخص قرآن نہ سنے۔ اگرچہ قرآن کی فصاحت و بلاغت اور شیریں انداز کلام سے وہ خود بھی متاثر ہو کر اپنی اس تدبیر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کبھی کبھی قرآن سن لیا کرتے تھے۔ اور قرآن کی دعوت کو روکنے کے لیے ان کی تیسری تدبیر یہ تھی کہ جہاں قرآن پڑھا جا رہا ہو وہاں خوب شوروغل کیا جائے تاکہ قرآن کی آواز کسی کے کانوں میں نہ پڑ سکے اس طرح تم اپنے مشن میں کامیاب ہو سکتے ہو۔ (٤١ : ٢٦) اسی پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس روش کو چھوڑ دو اور ذرا غور سے سنو تو سہی کہ اس میں کیا تعلیم دی گئی ہے کیا عجب کہ تم خود بھی اسی رحمت کے حصہ دار بن جاؤ جو ایمان لانے والوں کو نصیب ہوچکی ہے۔ مخالفین کی معاندانہ سرگرمیوں کے مقابلہ میں یہ ایسا دل نشین انداز تبلیغ ہے جس سے ایک داعی حق کو بہت سے سبق مل سکتے ہیں۔ قرآن کو خاموشی سے سننا :۔ اس آیت میں جو حکم دیا گیا ہے وہ مسلم اور غیر مسلم سب کے لیے عام ہے اور اس سے یہ بات بھی مستنبط ہوتی ہے کہ جہاں قرآن پڑھا اور سنا جاتا ہو وہاں اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ایک مسئلہ یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب جہری نمازوں میں امام قراءت کر رہا ہو تو مقتدی کو بھی بالخصوص سورۃ فاتحہ ساتھ ساتھ دل میں پڑھنی چاہیے یا نہیں۔ اس مسئلہ میں اگرچہ بعض علماء نے اختلاف کیا ہے تاہم ہمارے خیال میں اس مسئلہ میں وہ حدیث قول فیصل کا حکم رکھتی ہے جو سورۃ فاتحہ کے حاشیہ نمبر ١ میں درج کی جا چکی ہے۔