سَأَصْرِفُ عَنْ آيَاتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَإِن يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَّا يُؤْمِنُوا بِهَا وَإِن يَرَوْا سَبِيلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا وَإِن يَرَوْا سَبِيلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غَافِلِينَ
میں ایسے لوگوں کو اپنے احکام سے برگشتہ ہی رکھوں گا جو دنیا میں تکبر کرتے ہیں، جس کا ان کو کوئی حق نہیں اور اگر تمام نشانیاں دیکھ لیں تب بھی وہ ان پر ایمان نہ لائیں (١) اور اگر ہدایت کا راستہ دیکھیں تو اس کو اپنا طریقہ نہ بنائیں اور اگر گمراہی کا راستے دیکھ لیں تو اس کو اپنا طریقہ بنالیں (٢) یہ اس سبب سے ہے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے غافل رہے (٣)۔
[١٤٣] تکبر کی تعریف اور علامات :۔ تکبر کی جامع تعریف درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتی ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں رائی برابر بھی تکبر ہو۔‘‘ ایک شخص نے کہا : ہر انسان اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو اس کی جوتی اچھی ہو (کیا یہ تکبر ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ خوب صورت ہے، خوبصورتی کو پسند کرتا ہے، تکبر تو یہ ہے کہ تو حق کو ٹھکرا دے اور لوگوں کو حقیر سمجھے‘‘ (مسلم، کتاب الایمان۔ باب تحریم الکبروبیانہ ) یعنی تکبر کی ایک علامت تو یہ ہوتی ہے کہ متکبر انسان اللہ کے احکام کی کچھ پروا نہیں کرتا اور اپنے آپ کو اللہ کی بندگی کے مقام سے بالاتر سمجھنے لگتا ہے جیسے نہ تو وہ اللہ کا بندہ ہے اور نہ ہی اللہ اس کا پروردگار ہے اور دوسری علامت یہ ہے کہ اپنے آپ کو عام لوگوں سے کوئی بالاتر مخلوق سمجھنے لگتا ہے اور دوسروں کو اپنے سے فروتر سمجھ کر ان سے ویسا ہی سلوک کرتا ہے حالانکہ اس کی اس خودسری کے لیے کوئی وجہ جواز نہیں اللہ کی زمین پر رہتے ہوئے اور اس کا رزق کھاتے ہوئے کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ کا نافرمان اور متکبر بن کر رہے اسی لیے اللہ نے یہاں بغیر الحق کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ [ ١٤٣۔ الف] تکبرکا اثر انسانی طبائع پر :۔ پورے جملہ کا مفہوم یہ ہوگا کہ بلاوجہ تکبر کرنے والوں کی نگاہیں اللہ کی آیات کی طرف اٹھتی ہی نہیں۔ خواہ پوری کی پوری کائنات اللہ کی ایسی نشانیوں سے بھری ہوئی ہو اور ایسی ہی بے شمار آیات ان کے اپنے جسم کے اندر بھی موجود ہوں یا انہیں اللہ کی آیات پڑھ کر سنائی جائیں تو ان کے دل کوئی اثر قبول نہیں کرتے اور اگر کوئی خرق عادت معجزہ بھی دیکھ لیں تو اس کی تاویلات و توجیہات تلاش کرنے پر تو تیار ہوجاتے ہیں لیکن راہ راست پر آنے کا نام نہیں لیتے ہاں اگر کوئی گمراہی کی بات ہو اپنے خواہشات نفس کی پیروی کی بات ہو اللہ کی آیات کا مذاق اڑایا جا رہا ہو یا کمزور مسلمانوں پر پھبتیاں کسی جا رہی ہوں تو ایسی باتیں ان کو بہت راس آتی ہیں اور بھلی معلوم ہوتی ہیں۔