فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ آيَاتٍ مُّفَصَّلَاتٍ فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا مُّجْرِمِينَ
پھر ہم نے ان پر طوفان بھیجا اور ٹڈیاں گھن کا کیڑا اور مینڈک اور خون، کہ یہ سب کھلے کھلے معجزے تھے (١) سو وہ تکبر کرتے رہے اور وہ لوگ کچھ تھے ہی جرائم پیشہ۔
[١٢٩] طوفان، ٹڈیوں، جوؤں، مینڈکوں اور خون کا عذاب :۔ اس خشک سالی کے بعد اللہ نے ان پر زور دار بارش برسائی جو طوفان کی صورت اختیار کرگئی، اور اس سے ان کی فصلیں پانی میں ڈوب کر تباہ ہونے لگیں تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے التجا کی کہ اپنے پروردگار سے دعا کرو اگر بارش تھم گئی اور ہماری فصلیں بچ گئیں تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تو بارش رک گئی اور فصلیں بھی بچ گئیں لیکن پھر وہ اپنے عہد سے پھر گئے تو اس کی سزا کے طور پر اللہ نے ان کی پکی ہوئی تیار فصلوں پر ٹڈیوں کے دل کے دل بھیج دیئے جب انہوں نے دیکھا کہ یہ ٹڈیاں تو ان کی ساری فصلوں کو چٹ کر جائیں گی تو پھر موسیٰ علیہ السلام کی طرف دوڑے اور پہلے کی طرح اللہ سے دعا کی درخواست کی، آپ کی دعا سے انہیں اس عذاب سے بھی نجات مل گئی اور انہوں نے غلہ کاٹ کر گھروں میں محفوظ کرلیا تو پھر اکڑ بیٹھے۔ اب اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ان کے ذخیرہ کردہ غلہ میں سرسری کا عذاب بھیج دیا (قرآن میں قمل کا لفظ ہے جو چھوٹے چھوٹے جانداروں مثلاً چچڑی، مچھر، جوئیں، سُرسری اور ایسے ہی دوسرے کیڑوں کے لیے مستعمل ہے) کہ ذخیرہ کردہ غلہ پڑا پڑا ہی ناکارہ ہوجائے یہ صورت حال دیکھ کر وہ پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے اور دعا کی درخواست اور ایمان لانے کا عہد و پیمان کیا پھر جب آپ علیہ السلام کی دعا سے یہ عذاب دور ہوا تو پھر عہد شکنی کی تو اللہ نے یہ عذاب نازل کیا کہ مینڈکوں کی اس قدر بہتات ہوگئی کہ کھانا کھانے بیٹھتے تو ہر طرف سے مینڈک چڑھ آتے کبھی کھانے میں جا پڑتے کبھی سالن کے برتن میں اور کبھی ان کے کھانے کے لیے کھولے ہوئے منہ میں اور پانی پینے لگتے تو وہ خون کی شکل اختیار کرجاتا غرض جب ان کا جینا دوبھر ہوگیا تو پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے اور وہی التجا اور وعدے کیے۔ آپ علیہ السلام نے پھر دعا کی۔ ان سے یہ عذاب بھی ٹل گیا مگر پھر بھی وہ اکڑ بیٹھے اور ان سب تنبیہات کو جادو ہی کے کرشمے سمجھتے رہے۔