سورة الاعراف - آیت 105

حَقِيقٌ عَلَىٰ أَن لَّا أَقُولَ عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ ۚ قَدْ جِئْتُكُم بِبَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَرْسِلْ مَعِيَ بَنِي إِسْرَائِيلَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

میرے لئے یہی شایان ہے کہ بجز سچ کے اللہ کی طرف کوئی منسوب نہ کروں، میں تمہارے پاس (١) تمہارے رب کی طرف سے ایک بڑی دلیل لایا ہوں (٢) سو تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١١١] سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے فرعون سے مطالبات :۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے پاس پہنچ کر اسے دو باتیں ارشاد فرمائیں ایک یہ کہ میں اللہ رب العالمین کا فرستادہ ہوں اور میرے اس بیان کی صداقت کے طور پر مجھے دو معجزے بھی عطا کیے گئے ہیں لہٰذا تم اپنی خدائی سے دستبردار ہو کر ایمان لے آؤ (جیسا کہ بعض دوسری آیات قرآنی میں اس کی وضاحت موجود ہے) اور دوسری یہ کہ بنی اسرائیل کو آزاد کر کے میرے ہمراہ روانہ کر دو تاکہ میں انہیں یہاں سے فلسطین کی طرف لے جاؤں۔ ان دو آیات میں کئی امور قابل غور اور وضاحت طلب ہیں مثلاً : ١۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو یہ کیسے جرأت ہوئی کہ ایک اتنی عظیم الشان سلطنت کے مالک جابر اور متکبر بادشاہ کے سامنے نڈر ہو کر اسے ایمان لانے کی بھی دعوت دے دی اور بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ بھی کردیا بالخصوص ان حالات میں کہ وہ ان مصریوں کا ایک آدمی قتل کر کے یہاں سے بھاگے تھے اور انہیں اس بات کا خطرہ بھی تھا کہ کہیں فرعونی مجھے اسی سابقہ جرم میں گرفتار کر کے قتل نہ کردیں۔ فرعون کے سامنے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی بے مثال جرات کی وجوہ :۔ اس کا صحیح جواب تو یہی ہے کہ انبیاء و رسل کو جو ذمہ داری سونپی جاتی ہے انہیں اپنی جان پر کھیل کر بھی ذمہ داری ادا کرنا ہی پڑتی ہے چنانچہ کئی انبیاء علیہم السلام اسی ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے شہید بھی کردیئے گئے تاہم رسولوں کی حد تک ان کی جان بچانے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ خود اپنے ذمے لے لیتے ہیں اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے جب فرعون کے پاس آنے سے پیشتر اپنی جان کا خطرہ محسوس کیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ یقین دہانی کرا دی تھی کہ وہ تجھے قتل نہ کرسکیں گے پھر آپ کو چند باتوں کی تائید مزید بھی حاصل تھی ایک یہ کہ آپ فرعون کے دربار کے ماحول سے پوری طرح واقف تھے اور اپنی زندگی کا ابتدائی حصہ یہیں گزار کر گئے تھے اس لیے آپ پر دربار اور درباریوں کی وہ مرعوبیت طاری نہ ہو سکتی تھی جو ایک اجنبی کے لیے ہو سکتی تھی دوسرے آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ میرے بھائی ہارون کو نبوت عطا کر کے اس کام میں میرا مددگار بنا دے آپ کی یہ دعا بھی قبول ہوئی اور جب آپ فرعون کے پاس گئے تو سیدنا ہارون علیہ السلام بھی آپ کے ساتھ تھے۔ آپ کو اصل خطرہ اس بات کے نتیجے سے قطعاً نہ تھا کہ آپ اللہ کا پیغام من و عن انہیں پہنچا دیں بلکہ اس بات سے تھا کہ میں ان کا ایک مفرور مجرم بھی ہوں تو اس جرم کی پاداش میں وہ مجھے پکڑ کر مار ہی نہ ڈالیں تو اس بات کی یقین دہانی اللہ تعالیٰ نے کرا دی کہ وہ ایسا ہرگز نہ کرسکیں گے۔ ٢۔ موسیٰ علیہ السلام نے جو یہ فرمایا کہ ’’میں اللہ رب العالمین کا فرستادہ ہوں‘‘ تو وہ اس لحاظ سے تھا کہ فرعون اور فرعونی سب یہ بات تسلیم کرتے تھے کہ اس کائنات اور اس میں موجود تمام چیزوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ان کے تمام دیوی دیوتاؤں سے برتر ہے اور فرعون کا خدائی کا دعویٰ اس لحاظ سے تھا کہ وہ تمام لوگوں کا کار ساز اور حاجت روا اور مشکل کشا ہے موسیٰ علیہ السلام نے انہیں یہ بتلایا کہ جس اللہ کا میں رسول ہوں وہ تمہارے عقیدے کے مطابق بھی تمہاری خدائی سے بہت بلند و بالا ہے۔ ٣ سیدنا یوسف علیہ اسلام نے اپنے والدین اور اپنے بھائیوں کو چار سو سال پیشتر کنعان سے مصر میں بلا لیا تھا یہیں ان کی نسل بڑھتی اور پھلتی پھولتی رہی اس وقت اس کی حیثیت ایک حکمران قوم کی تھی۔ کچھ مدت بعد ان میں وہ تمام امراض پیدا ہوگئے جو کسی قوم کی موت کا سبب بن جاتے ہیں اور جب موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے تو یہ بنی اسرائیل جو لاکھوں کی تعداد تک پہنچ چکے تھے فرعونیوں کے ماتحت محکوم قوم کی حیثیت سے نہایت ذلت کی زندگی بسر کر رہے تھے جس کا ذکر قرآن کریم میں متعدد مقامات پر آیا ہے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو اپنی قوم کی اس مظلومانہ اور ذلت کی زندگی کا بچپن ہی سے شدید احساس ہوگیا تھا اور اسی بنا پر انہوں نے ایک اسرائیلی کی حمایت میں ایک فرعونی کو نادانستہ طور پر مار ڈالا تھا لہٰذا اللہ تعالیٰ نے بھی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی رسالت کا دوسرا بڑا مقصد بنی اسرائیل کی آزادی قرار دیا۔