سورة الاعراف - آیت 56

وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا ۚ إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور دنیا میں اس کے بعد کہ اس کی درستی کردی گئی ہے فساد مت پھیلاؤ اور تم اللہ کی عبادت کرو اس سے ڈرتے ہوئے اور امیدوار رہتے ہوئے بیشک اللہ تعالیٰ کی رحمت نیک کام کرنے والوں کے نزدیک ہے (١)۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٩] فساد فی الارض کیا ہے ؟:۔ فساد فی الارض یہ ہے کہ انسان اللہ کی بندگی چھوڑ کر اپنے نفس کی یا دوسروں کی اطاعت شروع کر دے اور اللہ کی بتلائی ہوئی راہ ہدایت کو چھوڑ کر اپنے اخلاق، معاشرت، معیشت، سیاست اور تمدن کی عمارت کو ایسے اصول و قوانین پر قائم کرے جو کسی اور کی رہنمائی سے ماخوذ ہوں یہی وہ بنیادی فساد ہے جس سے زمین کے انتظام میں خرابی کی بے شمار صورتیں پیدا ہوجاتی ہیں اور ایسے پیچیدہ مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جن کے حل کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور اگر کوئی حل سوچا بھی جائے تو مسائل سلجھنے کی بجائے مزید پیچیدہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء زمین میں اصلاح ہی اصلاح تھی کیونکہ پہلے بشر آدم خود نبی تھے بعد میں شیطانی عناصر نے اس اصلاح میں بگاڑ کی صورتیں پیدا کیں تو اللہ تعالیٰ انبیاء بھیج کر اس بگاڑ کو ختم کرتا رہا۔ جبکہ انسانی تمدن کی داستان لکھنے والے یہ نظریہ قائم کرتے ہیں کہ انسان ظلمت سے نکل کر بتدریج روشنی میں آیا ہے اور اس کی زندگی بگاڑ سے شروع ہوئی جو بتدریج سنور رہی ہے قرآن اس نظریہ کی پر زور تردید کرتا ہے۔ معاشرے کی اصلاح کا آغاز توحید ہی سے ہوسکتا ہے :۔ یعنی بگاڑ کو درست کرنے کی واحد صورت یہ ہے کہ اس کی ابتدا توحید سے کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء جو دنیا میں آئے عموماً ان حالات میں آئے کہ معاشرے میں طرح طرح کا بگاڑ پیدا ہوچکا تھا، تو انہوں نے اپنی دعوت کا آغاز توحید ہی سے کیا کہ اللہ کے ساتھ کسی بھی دوسرے کی بندگی سے اجتناب کو شرط اول قرار دیا یہ اصول اپنانے کے بعد معاشرہ سے برائیاں خود بخود رخصت ہوتی چلی جاتی ہیں۔