وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ
اور ہم نے تم کو پیدا کیا (١) پھر ہم نے تمہاری صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو سو سب نے سجدہ کیا بجز ابلیس کے وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔
اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ ہم نے تمہاری تخلیق کی ابتداء کی، پھر تمہیں صورت بخشی پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے پہلے تمہاری تخلیق کا منصوبہ بنایا۔ پھر مادہ آفرنیش تیار کیا پھر مادہ کو انسانی صورت عطا کی، پھر جب ایک زندہ ہستی کی صورت میں انسان وجود میں آگیا تو فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِاِنِّيْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِيْنٍ۔ فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِيْنَ﴾ (ص: ۷۱۔ ۷۲) ’’جبکہ آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک بشر مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں، پھر جب میں اسے پوری طرح تیار کرلوں اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اسکے سامنے سجدے میں گرجانا۔‘‘ ابن عباس سے روایت ہے کہ انسان اپنے باپ کی پیٹھ سے پیدا کیا جاتا ہے اور اپنی ماں کے پیٹ میں صورت دیا جاتا ہے۔ (حاکم: ۲/ ۳۱۹) قرآن مجید انسانیت کے آغاز کی کیفیت اُن نظریات کے خلاف بیان کرتا ہے جو موجودہ زمانے میں ڈارون کے ماننے والے سائنس کی رو سے پیش کرتے ہیں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ اِنِّيْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ۔ فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِيْنَ﴾ (الحجر: ۲۸۔ ۲۹) اور تصوّر کرو اس وقت کا جب کہ تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں خمیر اٹھی ہوئی مٹی کے گارے سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں پھر جب میں اِسے پوری طرح تیار کرلوں اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دوں تو تم اسکے آگے سجدے سے گر پڑنا۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ انسانیت کا آغاز خالص انسانیت ہی سے ہوا ہے اسکی تاریخ کسی غیر انسانی حالت سے قطعاً کوئی رشتہ نہیں رکھتی۔ وہ اوّل روز ے انسان ہی بنایا گیا ہے اور خدا کے کامل انسانی شعور کے ساتھ پوری روشنی میں اس کی ارضی زندگی کی ابتدا کی تھی۔