أَن تَقُولُوا إِنَّمَا أُنزِلَ الْكِتَابُ عَلَىٰ طَائِفَتَيْنِ مِن قَبْلِنَا وَإِن كُنَّا عَن دِرَاسَتِهِمْ لَغَافِلِينَ
کہیں تم لوگ یوں نہ کہو (١) کہ کتاب تو صرف ہم سے پہلے جو دو فرقے تھے ان پر نازل ہوئی تھی اور ہم ان کے پڑھنے پڑھانے سے محض بے خبر تھے (٢)
قرآن اتمام حجت: یہ خطاب کفار مکہ سے ہے کہ یہ کتاب دو وجوہات کی بناء پر نازل کی گئی ہے۔ (۱) ایک تو اتمام حجت کے لیے تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ یہود و نصاریٰ پر جو کتابیں اتاری گئی وہ انہی کے لیے تھیں۔ (۲) وہ کتابیں تو عجمی زبان میں تھیں۔ عربی زبان میں نہیں تھیں لہٰذا ہم ان کو کیسے پڑھ سکتے ہیں۔ ایک تیسری وجہ یہ بھی ہوسکتی تھی کہ جذبہ مسابقت یعنی اگر ہم پر کتاب نازل ہوتی تو ہم تم سے بڑھ کر اس پر عمل کرنے والے ہوتے۔ سو اب جو کتاب تمہاری طرف نازل کی جارہی ہے وہ کئی لحاظ سے تورات سے بہتر ہے اب اپنی مسابقت کا شوق پورا کرسکتے ہو۔ابن مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : ’’قرآن قیامت کے دن پڑھنے والے کے لیے حجت ہوگا یعنی حق میں ہوگا اور نہ پڑھنے والے کے خلاف گواہی دے گا۔‘‘ (مسلم: ۲۲۳)