ثُمَّ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ تَمَامًا عَلَى الَّذِي أَحْسَنَ وَتَفْصِيلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَّعَلَّهُم بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ
پھر ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تھی جس سے اچھی طرح عمل کرنے والوں پر نعمت پوری ہو اور رحمت ہو (١) تاکہ وہ لوگ اپنے رب کو ملنے پر یقین لائیں۔
قرآن کریم کا یہ اسلوب ہے کہ جہاں قرآن کا ذکر ہوتا ہے وہاں تورات کا اور جہاں تورات کا ذکر ہو وہاں قرآن کا بھی ذکر کردیا جاتا ہے اسی اسلوب کے تحت یہاں تورات کا ذکر اور اس کے اس وصف کا بیان ہے کہ وہ بھی اپنے دور کی ایک جامع کتاب تھی۔ اس میں بھی تمام ضروری امور موجود ہیں جس کی قوم موسیٰ کو ضرورت تھی۔ ہر ہدایت اس میں ملتی ہے سب سے بڑی بات آخرت پر یقین پختہ ہو کہ اپنے رب سے ملاقات ہوگی۔ آخرت پر یقین رکھنے اور نہ رکھنے والوں کا تقابل: پروردگار سے ملاقات سے مراد اللہ کے حضور اعمال کی جوابدہی کا تصور ہے۔ یہ وہ تصور ہے جو انسان کی زندگی کا رخ بدل سکتا ہے آخرت پر ایمان نہ رکھنے والے کی زندگی نہایت آزادانہ، غیر ذمہ دارانہ بلکہ وحشیانہ قسم کی بھی ہوسکتی ہے اور آخرت پر ایمان رکھنے احکام الٰہی کاپابند نواہی سے اجتناب کرنے والا اور دنیا میں انتہائی محتاط اور ذمہ دارا نہ زندگی گزارتا ہے۔