سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن شَيْءٍ ۚ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ حَتَّىٰ ذَاقُوا بَأْسَنَا ۗ قُلْ هَلْ عِندَكُم مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا ۖ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ أَنتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ
یہ مشرکین (یوں) کہیں گے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو حرام کرسکتے (١) اس طرح جو لوگ ان سے پہلے ہوچکے ہیں انہوں نے بھی تکذیب کی تھی یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھا (٢) آپ کہیے کیا تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو اس کو ہمارے سامنے ظاہر کرو (٣) تم لوگ محض خیالی باتوں پر چلتے ہو اور تم بالکل اٹکل پچو سے باتیں بناتے ہو۔
مشیت الٰہی اور رضائے الٰہی میں فرق: لوگ عموماً یہ بات بھول جاتے ہیں کہ مشیت الٰہی اور رضائے الٰہی میں بہت فرق ہے۔ اللہ کی رضا: اس بات میں ہے کہ سب لوگ میرے فرمانبردار بن جائیں اور کوئی کفر و شرک اور زیادتی کی راہ اختیار نہ کرے اسی لیے انسان کو قوت تمیز، قوت ارادہ و اختیار عطا کیا، کہ لوگوں کا امتحان لیا جائے، اختیار دے کر کفر و شرک اور نیکی اور بدی کی راہیں الگ الگ سمجھا دیں، پھر جو شخص اپنے ارادہ و اختیار سے اللہ کا فرمانبردار ہو اسے اچھا بدلہ ملے گا۔ اور جو شخص کفر و شرک کی راہ اختیار کرے گا اسے اسکی سزا ملے گی۔ اب کسی کا ہدایت قبول کرنا مشیت الٰہی بھی ہے اور رضائے الٰہی بھی۔ اور کفر و شرک اختیار کرنا مشیت الٰہی تو ہے مگر رضائے الٰہی ہرگز نہیں ہے۔ مشرکین کا قول: اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ کسی چیز کو حرام ٹھہراتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ پہلے لوگوں نے بھی ایسا کیا تھا پھر انھوں نے ہمارا عذاب چکھا رسول کا کام تو پہنچادینا ہے: ﴿وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدٰى فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ﴾ (الانعام: ۳۵) ’’اور اگر اللہ کو منظور ہوتا تو ان سب کو راہ راست پر جمع کردیتا۔ سو آپ نادانوں میں سے نہ ہوجائیے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ قَالُوْا لَوْ شَآءَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنٰهُمْ مَا لَهُمْ بِذٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ اِنْ هُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ﴾ (الزخرف: ۲۰) ’’اور کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم ان کی عبادت نہ کرتے، انھیں اس کی کچھ خبر نہیں یہ تو صرف اٹکل پچو (جھوٹ باتیں) کہتے ہیں۔‘‘ مشیت الٰہی کو بہانہ بنانے کی ایک مثال: ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لائے۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے درمیان بیٹھ کر بات چیت کرنے لگے۔ دوران گفتگو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا تم تہجد کی نماز کے لیے اٹھتے ہو؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔ یارسول اللہ! ہماری روحیں تو اللہ کے قبضہ میں ہوتی ہیں۔ اگر وہ واپس بھیج دے تو ہم نماز پڑھ لیں اس جواب پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی رانوں پر ہاتھ مارتے جاتے تھے اور یہ آیت پڑھتے جاتے تھے: ﴿وَ كَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا﴾ (الکہف: ۵۴) ’’یعنی انسان اپنی اکثر باتوں میں جھگڑا لو واقع ہوا ہے۔‘‘ (بخاری: ۱۱۲۷) غور فرمائیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مشیت الٰہی کا سہارا لیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول کو غلط قرار نہیں دیا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو افسوس اس بات پر ہوا کہ عمل کرنے کا اختیار انسان کو دیا گیا ہے اسے وہ کیوں بھول گئے۔ محض ظن کے پیچھے پڑے ہو: اللہ تعالیٰ نے اس مغالطے کا ازالہ کیا کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے، اس طرح فرمایا کہ اگر یہ شرک اللہ کی رضا کا مظہر تھا تو پھر ان پر عذاب کیوں آیا۔ عذاب الٰہی اس آیت کی دلیل ہے کہ مشیت اور چیز ہے اور رضائے الٰہی اور چیز پھر اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ اپنے دعوے پر تمہارے پاس دلیل ہے تو پیش کرو۔ لیکن ان کے پاس دلیل کہاں وہاں تو ظن و گمان ہی ہے ۔