سورة الانعام - آیت 141

وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۚ كُلُوا مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ۖ وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

اور وہی ہے جس نے باغات پیدا کئے وہ بھی جو ٹٹیوں میں چڑھائے جاتے ہیں اور وہ بھی جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے جاتے اور کھجور کے درخت اور کھیتی جن میں کھانے کی مختلف چیزیں مختلف طور کی ہوتی ہیں (١) اور زیتون اور انار جو باہم ایک دوسرے کے مشابہ بھی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے مشابہ بھی نہیں ہوتے (٢) ان سب کے پھلوں میں سے کھاؤ جب وہ نکل آئے اور اس میں جو حق واجب ہے وہ اس کے کاٹنے کے دن دیا کرو (٣) اور حد سے (٤) مت گزرو یقیناً وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے (٥

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اس آیت اور اگلی آیات میں مشرکوں کو تنبیہ کی جارہی ہے کہ کھیتیاں اور مویشی سب اللہ نے پیدا کیے ہیں اور ان میں سے درباروں اور بتوں کے پورا کرنے کی تمہیں فکر ہوتی ہے اللہ سے زیادہ تم ان سے ڈرتے ہو حلال اور حرام کے اختیارات بھی تم نے خود سنبھال لیے ہیں۔ اللہ نے سب سے پہلے اپنی ذات کا تعارف کرایا ہے، پیدا کرنے والا، اسباب مہیا کرنے والا، تدبیر کرنے والا، وہ اللہ ہے۔ معروشات کے معنی: بلند کرنے اور اٹھانے کے ہیں۔ اس آیت میں معروشات سے مراد بعض درختوں کی وہ بیلیں ہیں جو ٹیٹوں (چھروں اور منڈیروں) پر چڑھائی جاتی ہیں جیسے انگور اور بعض ترکاریوں کی بیلیں ہیں اور غیر معروشات سے مراد وہ درخت ہیں جن کی بیلیں زمین پر ہی پھیلتی ہیں جیسے خربوزہ اور تربوز کی بیلیں یا وہ تنے دار درخت جو بیل کی شکل میں نہیں ہوتے یہ تمام بیلیں، درخت اور کھجور کے درخت اور کھیتیاں سب اللہ کے پیدا کردہ ہیں، ان سب کے ذائقے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور زیتون اور انار، یہ سب دیکھ کر اللہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے، فرمایا: ﴿وَ هُوَ الَّذِيْۤ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجْنَا بِهٖ نَبَاتَ كُلِّ شَيْءٍ فَاَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا وَ مِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِيَةٌ وَّ جَنّٰتٍ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّ الزَّيْتُوْنَ وَ الرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَّ غَيْرَ مُتَشَابِهٍ﴾ (الانعام: ۹۹) ’’اور وہ (اللہ) ایسا ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا پھر ہم نے اس کے ذریعہ سے ہر قسم کے نباتات کو نکالا پھر ہم نے اس سے سبز شاخ نکالی، کہ اس سے ہم اوپر تلے چڑھے ہوئے دانے نکالتے ہیں۔ اور کھجور کے درختوں سے یعنی ان کے گچھے میں خوشے ہیں جو نیچے لٹکے جاتے ہیں۔ اور انگوروں کے باغ اور زیتون اور انار کہ بعض ایک دوسرے سے ملتے جُلتے ہوتے ہیں۔‘‘ اللہ کا حق کیا ہے: جب کھیتی سے غلہ کاٹ لو اور پھل درختوں سے توڑ لو تو اس کا حق ادا کرو، یعنی صدقہ کرو بعض علماء کے نزدیک نفلی صدقہ ہے اور بعض کے نزدیک عشر یعنی پیداوار کا دسواں حصہ (اگر زمین بارانی ہو) یا نصف عشر یعنی بیسواں حصہ (اگر زمین کنوئیں ٹیوب ویل یا نہری پانی سے سیراب کی جاتی ہو) کیونکہ ان ذرائع سے پانی حاصل کرنے پر مال خرچ ہوتا ہے۔ بے جا خرچ نہ کرو: یعنی خیرات و صدقات میں بھی حد سے تجاوز نہ کرو ایسا نہ ہو کہ کل تم ضرورت مند ہوجاؤ۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ کھانے میں اسراف مت کرو۔ کیونکہ بسیار خوری عقل اور جسم دونوں کے لیے مفسر ہے۔قرآن کریم میں ہے ’’کھاؤ پیو، اور اسراف نہ کرو۔‘‘ کھاؤ، پیو، پہنو، اوڑھو اور اسراف نہ کرو۔ (ابن کثیر: ۲/ ۲۹۸) اہل عرب کی فیاضی نمودو نمائش کے لیے تھی آج کل مسلمانوں نے اسراف کو اپنی امارت کے اظہار کی علامت بنا لیا ہے، اللہ تعالیٰ نے فضول خرچ کو شیطان کا بھائی کہا ہے اور شیطان اللہ کا ناشکرا ہے اسلام نے اعتدال کی تعلیم دی ہے۔