سورة الانعام - آیت 138

وَقَالُوا هَٰذِهِ أَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ لَّا يَطْعَمُهَا إِلَّا مَن نَّشَاءُ بِزَعْمِهِمْ وَأَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُهَا وَأَنْعَامٌ لَّا يَذْكُرُونَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا افْتِرَاءً عَلَيْهِ ۚ سَيَجْزِيهِم بِمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور وہ اپنے خیال پر یہ بھی کہتے ہیں یہ کچھ مویشی ہیں اور کھیت میں جن کا استعمال ہر شخص کو جائز نہیں ان کو کوئی نہیں کھا سکتا سوائے ان کے جن کو ہم چاہیں (١) اور مویشی ہیں جن پر سواری یا بار برداری حرام کردی گئی (٢) اور کچھ مویشی ہیں جن پر لوگ اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیتے محض اللہ پر افترا (بہتان) باندھنے کے طور پر (٣)۔ ابھی اللہ تعالیٰ ان کو ان کے افترا کی سزا دیئے دیتا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

مشرکوں کی اپنی وضع کردہ شریعت: اس آیت میں مشرکین کی جاہلی شریعت کی تین باتیں اور بتائی ہیں۔ (۱)مشرکین کا دستور تھا کہ جس کھیتی یا مویشی کے متعلق وہ یہ منت مان لیتے کہ وہ فلاں بُت، فلاں دربار یا فلاں حضرت کے لیے مخصوص ہے یہ نیاز ہر کوئی نہیں کھا سکتا تھا۔ ایک فہرست بنا رکھی تھی کہ اس قسم کی نذرہو تو فلاں کھائے گا اور فلاں قسم کی ہو تو فلاں فلاں کھائے گا۔ (۲) جن مویشیوں کو بُتوں یاد رباروں کی نظر کیا جاتا ان پر سواری کرنا حرام تھی حتیٰ کہ حج کے سفر میں بھی سواری ممنوع تھی۔ (۳)ان جانوروں کو ذبح کرتے ہوئے وہ صرف اپنے بتوں کا نام لیتے، ان پر اللہ کا نام لینا ممنوع تھا۔ دودھ دوہتے وقت، سواری کرتے وقت، ذبح کرتے اور کھاتے وقت غرض کسی وقت بھی ان پر اللہ کا نام لینا ممنوع تھا۔ تاکہ ان کے معبود کی نذر و نیاز میں اللہ کی شراکت نہ ہونے پائے۔ یہ ساری صورتیں گھڑی ہوئی تو ان کی اپنی تھیں لیکن وہ اللہ پر افترا باندھتے اور یہ باور کراتے کہ ہم یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے ہی کررہے ہیں۔