قُلْ يَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن تَكُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ ۗ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ
آپ یہ فرما دیجئے اے میری قوم! تم اپنی حالت پر عمل کرتے رہو میں بھی عمل کر رہا ہوں (١) سو اب جلد ہی تم کو معلوم ہوا جاتا ہے کہ اس عالم کا انجام کار کس کے لئے نافع ہوگا یہ یقینی بات ہے کہ حق تلفی کرنے والوں کو کبھی فلاح نہ ہوگی۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے ذریعے سے کہلوایا کہ تم اپنے شغل میں رہو میں اپنے کام میں لگا ہوں تم بھی منتظر ہو، ہم بھی انتظار میں ہیں عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ انجام کے لحاظ سے کون اچھا رہا، اللہ نے جو وعدے اپنے رسول سے کیے ہیں وہ سب اٹل ہیں، چنانچہ دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ نبی جس کا چپہ چپہ مخالف تھا، جسکا نام لینا دوبھر تھا، جو یکا و تنہا تھا، جو وطن سے نکال دیا گیا، جس کی دشمنی ہر ایک کرتا تھا،اللہ تعالیٰ نے اُسے غلبہ دیا، بڑی بڑی سلطنتوں کے منہ پھیردیے۔ جدھر گئے غلبہ پایا یہی اللہ کا وعدہ تھا کہ میں اور میرے رسول غالب آئیں گے اور ظالموں کو ہم نیست و نابود کردیں گے۔ ظالم سے مراد: شرک ہے جیسے سیدنا لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی تھی کہ ’’بیٹے کبھی شرک نہ کرنا، کیونکہ شرک ہی سب سے بڑا ظلم ہے۔‘‘