وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُم بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُم بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَىٰ أَجَلٌ مُّسَمًّى ۖ ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اور وہ ایسا ہے کہ رات میں تمہاری روح کو (ایک گونہ) قبض کردیتا ہے (١) اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو اس کو جانتا ہے پھر تم کو جگا اٹھاتا ہے (٢) تاکہ میعاد معین تمام کردی جائے (٣) پھر اسی کی طرف تم کو جانا ہے پھر تم کو بتلائے گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔
لکھی ہوئی تقدیر: عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ’’اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیریں آسمانوں و زمین سے پچاس ہزار سال پہلے لکھ لی تھیں جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا۔ (مسلم: ۲۶۵۳) روح کی قسمیں اور حشر نشر پر دلیل: روح دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایك حیوانی دوسری روحانی یا نفسانی رات کو نیند کے دوران نفسانی روح جسم سے نکل جاتی ہے جسے اللہ قبض کرلیتا ہے انسان کی سماعت بصارت اور قلب و دماغ اپنا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں لیکن حیوانی روح جسم میں موجود رہتی ہے جس کی وجہ سے انسان کا دوران خون جاری رہتا ہے ۔ اور وہ سانس بھی لیتا رہتا ہے نیند پوری ہونے یا سوئے ہوئے کو جگانے سے نفسانی روح واپس آجاتی ہے ان دونوں روحوں کا تعلق یہ ہوتا ہے کہ ایک روح کے خاتمہ یا قبض کرنے سے دوسری کا از خود خاتمہ ہوجاتا ہے سوئے ہوئے انسان پر آدھی موت طاری ہوچکی ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیند کو موت کی بہن قراردیا ہے۔ اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے اور دوسری حقیقت یہ بتائی کہ جس طرح اللہ تمہاری نفسانی روح رات کو قبض کرکے صبح تمہارے جسم میں بھیج دیتا ہے اسی طرح موت کے وقت تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جب قیامت قائم ہوگی تو وہی روح واپس بھیج کر تمہیں قبروں سے اٹھا کھڑا کرے گا۔ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو یہ دعا پڑھتے۔ (اللھم باسمك اموت واحیا)‘‘ (بخاری: ۶۳۱۲) تیرے نام سے ہی جیتا اور مرتا ہوں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں دن اور رات کے فرشتے باری باری آتے ہیں عصر اور فجر کی نماز کے وقت وہ جمع ہوجاتے ہیں پھر وہ فرشتے جو رات کو تمہارے پاس رہے تھے اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا، حالانکہ وہ تم سے خوب واقف ہے فرشتے عرض کرتے ہیں ہم نے انھیں چھوڑا وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ اور جب ان کے پاس گئے تو بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ (بخاری: ۲۷۱۴)