وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۖ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِن بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
یہ لوگ جب آپ کے پاس آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو (یوں) کہہ دیجئے کہ تم پر سلامتی ہے (١) تمہارے رب نے مہربانی فرمانا اپنے ذمہ مقرر کرلیا ہے (٢) کہ جو شخص تم میں سے برا کام کر بیٹھے جہالت سے پھر وہ اس کے بعد توبہ کرلے اور اصلاح رکھے تو اللہ (کی یہ شان ہے کہ وہ) بڑی مغفرت کرنے والا ہے (٣)
مسلمانوں میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن سے زمانہ جاہلیت میں کئی بڑے بڑے گناہ سرزد ہوچکے تھے اگرچہ اب انھوں نے اپنی اصلاح کرلی تھی، توبہ کرلی تھی، انکی زندگی بدل چکی تھی۔ لیکن اسلام کے مخالفین انھیں سابقہ اعمال و عیوب پر طعنے دینے سے باز نہیں آتے تھے اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا جارہا ہے کہ آپ اہل ایمان کو تسلی دیں اور کہیں کہ آپ کا رب بڑا غفورالرحیم ہے جو اسلام لاکر توبہ کرلیتا ہے اپنی اصلاح کرلیتا ہے تو اللہ اس کے پچھلے گناہوں پر اس کی گرفت نہیں کرتا۔ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جب کوئی شخص ایمان لائے اور ٹھیک طور پر لائے تو اس سے سابقہ تمام برائیاں دور کردی جاتی ہیں اور اس کے بعد جو حساب شروع ہوگا وہ یوں ہوگا کہ ہر نیکی کے عوض دس سے لیکر سات سو تک نیکیاں لکھی جائیں گے اور برائی کے عوض ایک ہی برائی لکھی جائے گی الا یہ کہ اللہ وہ بھی معاف کردے۔ (بخاری: ۴۱) آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو یقین دلائیے کہ تم پر اللہ کی طرف سے سلامتی ہے اللہ کی رحمت بڑی وسیع ہے۔ ارشادِ نبوی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تخلیق کائنات سے فارغ ہوگیا تو اس نے عرش پر لکھدیا ’’میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔‘‘ (بخاری: ۳۱۹۴) اس میں بھی اہل ایمان کے لیے بشارت ہے کہ یہ ان ہی کی صفت ہے کہ اگر غلطی سے اور بشر ہونے کے ناتے وہ کوئی گناہ کر بیٹھیں تو پھر فوراً توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلیتے ہیں۔