وَكَذَٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لِّيَقُولُوا أَهَٰؤُلَاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّن بَيْنِنَا ۗ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ
اور اسی طرح ہم نے بعض کو بعض کے ذریعہ سے آزمائش میں ڈال رکھا ہے تاکہ یہ لوگ کہا کریں، کیا یہ وہ لوگ ہیں کہ ہم سب میں سے ان پر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا (١) کیا یہ بات نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ شکرگزاروں کو خوب جانتا ہے (٢)
ابتداء میں اکثر غریب، غلام قسم کے لوگ ہی مسلمان ہوئے تھے اس لیے یہی چیز سرداران قریش کی آزمائش کا ذریعہ بن گئی۔ وہ ان کا مذاق بھی اڑاتے اور جن پر ان کا بس چلتا اسے اذیت سے بھی دوچار کرتے اور کہتے کہ کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے احسان فرمایا ہے مقصد ان کا یہ ہے کہ اگر اسلام واقعی اللہ کا احسان ہوتا تو یہ سب سے پہلے ہم پر ہوتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُوْنَااِلَيْهِ﴾ (الاحقاف: ۱۱) ’’اگر یہ بہتر چیز ہوتی تو اس کے قبول کرنے میں یہ ہم سے سبقت نہ کرتے۔‘‘ یعنی ان ضعیفوں غریبوں کے مقابلے میں ہم پہلے مسلمان ہوتے اللہ زیادہ جانتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ظاہری ٹھاٹھ باٹھ، چمک دمک، نہیں دیکھتا وہ تو دلوں کی کیفیت کو دیکھتا ہے اور اس اعتبار سے وہ جانتا ہے کہ اس کے شکرگزار بندے اور حق شناس کون ہیں۔ پس اس نے جن کے اندر شکر گزاری کی خوبی دیکھی انھیں ایمان کی سعادت سے سرفراز کردیا چنانچہ ایک حدیث میں ارشاد ہے۔ اللہ تمہاری صورتیں اور تمہارے رنگ نہیں دیکھتا وہ تو تمہارے دل اور تمہارے عمل دیکھتا ہے۔ (مسلم: ۳۳/ ۲۵۶۴)