وَأَنذِرْ بِهِ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَن يُحْشَرُوا إِلَىٰ رَبِّهِمْ ۙ لَيْسَ لَهُم مِّن دُونِهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
اور ایسے لوگوں کو ڈرائیے جو اس بات سے اندیشہ رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے پاس ایسی حالت میں جمع کئے جائیں گے کہ جتنے غیر اللہ ہیں نہ ان کا کوئی مددگار ہوگا اور نہ کوئی شفاعت کرنے والا، اس امید پر کہ وہ ڈر جائیں (١)۔
انسان ہر ڈرنے والی چیز کو اچھا نہیں سمجھتا۔ اور وہ افراد بھی اچھے نہیں لگتے جو ڈراتے رہتے ہیں، اسی لیے جب اللہ اور آخرت سے ڈرنے والی بات ہو تو لوگ کہتے ہیں ڈرانے والی باتیں نہ کریں، اس لیے حشر، قیامت اور آگ کی باتیں لوگ سننا پسند نہیں کرتے کہ خوشیاں متاثر ہونگی۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم برے انجام سے ڈراتے ہیں: جو لوگ ایمان لاچکے، آخرت پر یقین رکھتے ہیں اور اللہ کے حضور جوابدہی کے تصور اور دوزخ کے عذاب سے ڈرتے ہیں وحی کے احکام ان تک ضرور پہنچا دیجئے یہی لوگ ہیں جو پھر کامیاب ہونے کی کوشش کرتے ہیں، انذار کی وجہ سے لوگ متقی ہوجاتے ہیں بُرے کام چھوڑ دیتے ہیں جنت کی حرص لگ جاتی ہے۔ ایک شخص نے فوت ہونے سے پہلے کہا کہ میری موت جب واقع ہوجائے تو مجھے جلا دینا اور میری راکھ کو ہوا میں اڑا دینا۔ اللہ نے پوچھا تم نے ایسا کیوں کیا اُس نے جواب دیا ’’اللہ تیرے خوف کی وجہ سے ‘‘ اس خوف کہ وجہ سے اُسے بخش دیا گیا ۔ کسی کی سفارش کام نہ آئے گی: جولوگ روز آخرت پر یقین تو رکھتے ہیں مگر ساتھ ہی یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ وہ بزرگوں کی اولاد ہیں یا بزرگ انکی سفارش کرکے انھیں بچا لیں گے اللہ نے اپنے نبی سے فرمایا کہ انھیں خبردار کیجئے کہ اُس دن کسی کی سفارش، حسب و نسب، اور کوئی قریبی رشتہ دار کام نہیں آئے گا۔ اسی لیے اپنے اعمال کی خود فکر کیجئے۔ رسول اللہ کی نبوت کا مقصد ہی دعوت و تبلیغ تھا تاکہ انسان ڈر کراللہ کی آگ سے بچ جائیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ جَآءَكُمُ النَّذِيْرُ﴾ (فاطر: ۳۷) ’’اور تمہارے پاس ڈرانے والا آگیا۔‘‘