سورة الانعام - آیت 44

فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پھر جب وہ لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جس کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کشادہ کردیئے یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو کہ ان کو ملی تھیں وہ خوب اترا گئے ہم نے ان کو دفعتًا پکڑ لیا، پھر تو وہ بالکل مایوس ہوگئے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

دنیا میں عذاب سے متعلق اللہ کا قانون: ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی پکڑ کا قانون بیان فرمایا ہے جب کوئی قوم یا فرد اللہ کی نافرمانی کا آغاز کرتا ہے تو ان پر اللہ ہلکے ہلکے عذاب نازل فرماتا ہے ۔ مثلاً قحط یا خشک سالی یا کوئی وبا وغیرہ ۔ یہ عذاب وارننگ کے طور پر ہوتے ہیں تاکہ لوگ اللہ کی گرفت سے ڈر کر اُسکے حضور توبہ کرلیں اور اگر توبہ نہ کریں اور نافرمانیوں اور سرکشیوں میں بڑھتے ہی چلے جائیں تو اللہ تعالیٰ ایسی قوم پر وقتی طور پر آسائشوں اور عیش و عشرت کے دروازے کھول دیتا ہے یہاں تک کہ جب وہ اس میں خوب مگن ہوجاتے ہیں۔کھانے پکانے میں ہر وقت مگن ہوتے ہیں کہ اچانک اللہ کی پکڑ آجاتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن مجھے دو دفعہ کھانا کھاتے ہوئے دیکھا توفرمایا ’’عائشہ کیا تم چاہتی ہو کہ تمہارا دھیان ہر وقت کھانے پکانے میں لگا رہے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جب تم دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے نافرمانیوں کے باوجود کسی کو اس کی خواہشات کے مطابق دنیا دے رہا ہے تو یہ ڈھیل دیتا ہے پھر آپ نے یہی آیات تلاوت فرمائیں۔ (مسند احمد: ۴/ ۱۴۵) قرآن کریم کی اس آیت اور حدیث نبوی سے معلوم ہوا کہ دنیوی ترقی و خوشحالی اس بات کی دلیل نہیں ہے۔ کہ جس فرد و قوم کو یہ حاصل ہے وہ اللہ کی چہیتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہے یہ تو مہلت کے طور پرہے۔