وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُم بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ
اور ہم نے اور امتوں کی طرف بھی جو کہ آپ سے پہلے گزر چکی ہیں پیغمبر بھیجے تھے، سو ہم نے ان کو تنگدستی اور بیماری سے پکڑا، تاکہ وہ اظہار عجز کرسکیں۔
اس آیت میں رب کی مہربانی کا تذکرہ ہے جب انسان کو زمین پر اتارا تو فرمایا ’’تم اکیلے نہیں تمہارے پاس ہماری طرف سے ہدایت آئے گی پھر اگر تم نے اس پر عمل کیا تو تمہیں نہ کوئی خوف ہوگا نہ غم ہوگا۔‘‘ اللہ کا طے شدہ قانون ہے کہ وہ سختیوں اور مصیبتوں میں مبتلا کرکے انسانوں کی آزمائش کرے گا اور یہ خوف و غم طاری کرنے کے لیے نہیں بلکہ عاجزی اختیار کرنے کے لیے ہے اگر کلام اللہ سے دل نرم نہیں ہوتے تو پھر اللہ مصائب و مشکلات میں مبتلا کرتے ہیں تاکہ لوگ سوچنے سمجھنے لگ جائیں، دل شکستگی سے عاجزی آتی ہے۔ جو کام انسان سہولتوں میں نہیں کرتا تکلیف آنے پر کرسکتا ہے اللہ کی رحمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مَااَرْسَلْنَا فِيْ قَرْيَةٍ مِّنْ نَّبِيٍّ اِلَّا اَخَذْنَااَهْلَهَا بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُوْنَ﴾ (الاعراف: ۹۴) کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجا ہو اور اس بستی کے لوگوں کو تنگی اور مشکلات میں مبتلا نہ کیا ہو تاکہ وہ عاجزی اختیار کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ’’تمہارا چراغ بھی بجھ جائے تو’’ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘ کہو مومن کو جو تکلیف پہنچے انھیں اللہ ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے کہ ہم اللہ کے ہیں اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ (ابی حاتم: ۳/ ۲۱۱) امام حسن بصری فرماتے ہیں ’’جس نے کشادگی میں اللہ کی ڈھیل نہ سمجھی وہ بے عقل ہے اور جس نے تنگی میں اللہ کی رحمت کی اُمید نہ رکھی وہ بھی بے وقوف ہے۔ (ابن کثیر: ۲/ ۲۲۶)