هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن طِينٍ ثُمَّ قَضَىٰ أَجَلًا ۖ وَأَجَلٌ مُّسَمًّى عِندَهُ ۖ ثُمَّ أَنتُمْ تَمْتَرُونَ
وہ ایسا ہے جس نے تم کو مٹی سے بنایا (١) پھر ایک وقت معین کیا (٢) اور دوسرا معین وقت خاص اللہ ہی کے نزدیک ہے (٣) پھر بھی تم شک رکھتے ہو۔
دوسری دلیل: یعنی تمہارے باپ آدم علیہ السلام جو تمہاری اصل ہیں اور جن سے تم سب نکلے ہو ان کو مٹی سے بنایا۔ پھر تمہاری تمام غذائی ضروریات مٹی سے پوری ہورہی ہیں۔ اور انہی غذاؤں سے جو تم مٹی سے جو حاصل کرتے ہو۔ کھاتے ہو انہی سے نطفہ پیدا ہوتا ہے اور رحم مادر میں جاکر تخلیق انسانی کا باعث بنتا ہے گویا اس نے تمہیں ایک بے جان چیز سے پیدا کیا۔ پھر ایک مدت مقرر کی یعنی موت کا وقت۔ پھر تم اس مٹی میں مل جاؤ گے۔ ایک اور مدت مقرر ہے یعنی قیامت :اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے گویا پہلی اجل سے مراد پیدا ئش سے لیکر موت تک انسان کی عمر ہے اور دوسری اجل مسمیٰ! انسان کی موت سے لیکر وقوع قیامت تک دنیا کی کل عمر ہے جس کے بعد وہ زوال و فنا سے دوچار ہوجائے گی اور ایک دوسری دنیا یعنی آخرت کی زندگی کا آغاز ہوجائے گا، سب لوگ قبروں سے اٹھا کھڑے کیے جائیں اور اللہ کے حضور ان کا محاسبہ ہوگا۔ پھر بھی تم شک کرتے ہو۔ سورۂ یٰٓس میں فرمایا: جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے دوبارہ بھی تمہیں وہی اللہ زندہ کرے گا۔ ایک روایت میں ہے کہ انسان کو اللہ نے مٹی سے بنایا۔ (ابو داود: ۴۶۹۳، ترمذی: ۲۹۵۵) جبرائیل کو مٹی لانے کے لیے بھیجا، زمین نے پناہ مانگی میکائیل کو بھیجا، زمین نے پناہ مانگی، ملک الموت کو بھیجا زمین نے اس سے بھی اللہ کی پناہ مانگی۔ مگر انھوں نے کہا میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں پھر میکائیل نے مختلف جگہوں سے مٹی اکٹھی کی، سرخ، سفید، پھر اس میں نمک اور پانی ملایا۔ پھر اُسے میٹھے اور تلخ پانی سے گوندھا، اسی لیے اخلاق جدا جدا ہیں۔