يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ ۖ قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ
جس روز اللہ تعالیٰ تمام پیغمبروں کو جمع کرے گا، پھر ارشاد فرمائے گا کہ تم کو کیا جواب ملا تھا، وہ عرض کریں گے کہ ہم کو کچھ خبر نہیں (١) تو ہی پوشیدہ باتوں کو پورا جاننے والا ہے۔
انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ان کی قوموں نے اچھا یا بُرا جو بھی معاملہ کیا اس کا علم تو انھیں یقینا ہوگا مگر روز حساب ایک وقت ایسا آئے گا جب دہشت اتنی زیادہ ہوگی کہ ماسوائے محمد رسول اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انبیاء و رسل سمیت سب نفسی نفسی پکار رہے ہونگے اور اپنی اپنی نجات کی فکر کے سوا کسی کو کوئی بات سوجھ نہیں رہی ہوگی۔ اس بناء پر رسول ایسے وقت انتہائی مختصر اور جامع جواب دیں گے کہ عالم الغیوب تو توہی ہے نہ کہ ہم۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء و رسل عالم الغیب نہیں ہوتے، عالم الغیب صرف ایک اللہ کی ذات ہے انبیاء کو جتنا کچھ بھی علم ہوتا ہے اولاً تو اس کا تعلق ان امور سے ہوتا ہے جو فرائض رسالت کی ادائیگی کے لیے ضروری ہوتے ہیں، ثانیاً ان سے بھی ان کو بذریعہ وحی ہی آگاہ کیا جاتا ہے حالانکہ عالم الغیب وہ ہوتا ہے جس کو ہر چیز کا علم ذاتی طور پر ہو نہ کہ کسی کے بتلانے پر کسی چیز کا علم حاصل ہو اسے عالم الغیب نہیں کہا جاتا اور نہ وہ ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَلَنَسْـَٔلَنَّ الَّذِيْنَ اُرْسِلَ اِلَيْهِمْ وَ لَنَسْـَٔلَنَّ الْمُرْسَلِيْنَ﴾ (الاعراف: ۶) ’’پھر یہ ضرور ہوکر رہنا ہے کہ ہم ان لوگوں سے بازپرس کریں جن کی طرف ہم نے پیغمبر بھیجے اور ان سے بھی پوچھا جائے گا۔‘‘ ابوہریرہ سے روایت ہے کہ: ’’جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ تو آپ نے کہا: ’’اے قریش اپنے اپنے مال و جان کے عوض اپنے آپ کو بچالو۔‘‘ (مسلم: ۲۰۴)