سورة المآئدہ - آیت 106

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَأَصَابَتْكُم مُّصِيبَةُ الْمَوْتِ ۚ تَحْبِسُونَهُمَا مِن بَعْدِ الصَّلَاةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۙ وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللَّهِ إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الْآثِمِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اے ایمان والو! تمہارے آپس میں دو شخص کا گواہ ہونا مناسب ہے جبکہ تم میں سے کسی کو موت آنے لگے اور وصیت کرنے کا وقت ہو وہ دو شخص ایسے ہوں کہ دیندار ہوں خواہ تم سے ہوں (١) یا غیر لوگوں میں سے دو شخص ہوں اگر تم کہیں سفر میں گئے ہو اور تمہیں موت آجائے (٢) اگر تم کو شبہ ہو تو ان دونوں کو بعد نماز روک لو پھر دونوں اللہ کی قسم کھائیں کہ ہم اس قسم کے عوض کوئی نفع نہیں لینا چاہتے (٣) اگرچہ کوئی قرابت دار بھی ہو اور اللہ تعالیٰ کی بات کو ہم پوشیدہ نہ کریں گے ہم اس حالت میں سخت گناہ گار ہوں گے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

صاحب عدل گواہ ضروری ہیں: دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک واقعہ پیش آیا ۔ بنو سہم کےایک مسلمان ’’بدیل‘‘ اپنے دو ساتھیوں تمیم اور عدی کے ساتھ جو نصرانی تھے شام کی طرف ایک تجارتی سفر پر روانہ ہوئے بدیل شام جاکر بیمار پڑگیا اسے افاقہ ہوتا نظر نہ آرہا تھا اُس نے اپنا اثاثہ باندھ کر اپنے دونوں ساتھیوں کے حوالے کردیا اور تاکید کی یہ سامان میرے وارثوں کے حوالے کردیں۔ اس نے عقلمندی کی اور اپنے سامان کی فہرست تیار کرکے سامان میں کہیں چھپادی اور ساتھیوں کو اس کی خبر نہ دی۔ اس سامان میں ایک چاندی کا پیالہ تھا جس پرسونے کا پانی چڑھ ہوا تھا اور نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ ان نصرانیوں نے ساتھی کے مرنے کے بعد جب سامان دیکھا تو نیت میں فتور آگیا اور وہ قیمتی پیالہ سامان سے چرا لیا۔ اور بازار میں سنار کے پاس فروخت کردیا۔ جب سامان وارثوں کے پاس پہنچا اور انھوں نے قیمتی پیالہ اس میں نہ پا کر سامان لانے والوں سے پوچھا کہ ’’مرنے والے نے اپنی کوئی چیز فروخت تو نہیں کی تھی۔‘‘ ورثہ نے تسلی کرلینے کے بعد یہ مقدمہ عدالت نبوی میں پیش کیا۔ آپ نے تمیم اور عدی دونوں کو بلاکر بیان لیا تو وہ کہنے لگے ہمیں اس پیالے کاکچھ علم نہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان نصرانیوں کو بری قرار دے دیا۔ کچھ عرصہ بعد بدیل کے وارثوں نے وہی پیالہ ایک سنار کے پاس دیکھا تو اُس سے پوچھا کہ یہ پیالہ تم نے کہاں سے لیا۔ اس نے تمیم اور عدی کا نام لیا۔ چنانچہ مدعی دوبارہ یہ مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں لے گئے آپ نے پھر نصرانیوں کو بلایا اور ان کے سامنے وارثوں میں سے دو گواہوں نے قسم اٹھا کر گواہی دی کہ یہ پیالہ ہمارے ہی آدمی کا ہے نصرانی اپنی قسم میں جھوٹے ہیں اور ہم اللہ سے ڈرتے ہوئے بالکل صحیح اور سچی گواہی دے رہے ہیں۔ یہ گواہیاں میت کے قریبی رشتہ داروں کی تھیں جو مسلمان تھے۔ نیز یہ گواہیاں نماز عصر کے بعد مسجد میں ہوئی تھیں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میت کے وارثوں کے حق میں فیصلہ دیا۔ اور نصرانیوں سے اس پیالہ کی قیمت (ایک ہزار درہم) میت کے وارثوں کو دلائی۔ اس وقت یہ آیات نازل ہوئیں پھر کچھ عرصہ بعد تمیم مسلمان ہوگیا تو اس نے اقرار کیا کہ واقعی اس نے جھوٹی قسم کھائی تھی۔ اس واقعہ اور ان آیات کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ ہر حال میں گواہی ٹھیک ٹھیک اور سچی ہی دینی چاہیے۔ جھوٹی یا گول مول شہادت گناہ کبیرہ ہے۔ (بخاری: ۲۷۸۰)