وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۚ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو احکام نازل فرمائے ہیں ان کی طرف اور رسول کی طرف رجوع کرو تو کہتے ہیں کہ ہم کو وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے بڑوں کو پایا، کیا اگرچہ ان کے بڑے نہ کچھ سمجھ رکھتے ہوں اور نہ ہدایت رکھتے ہوں۔
تقلید آباء بھی دراصل شرک کی ہی ایک قسم ہے کیونکہ ایسی صورت میں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے مقابلہ میں دین آباء کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ فطرتاً ہر انسان اپنے بزرگوں سے عقیدت رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ہمارے بزرگ بہت زیادہ نیک عالم اور دین کو سمجھنے والے ہیں۔ حالانکہ یہ مسلمہ امر ہے کہ انبیاء کے علاوہ کوئی شخص معصوم نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور وحی کی طرف بلایا ہے وحی اللہ کی شریعت ہے ضابطہ زندگی ہے وحی الٰہی سے سنت رسول سے اسلام اور جاہلیت کے راستے الگ الگ ہوتے ہیں، رسول اللہ کے بعد بھی اُمت مسلمہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کی دعوت دیتے رہیں جو اللہ نے اتارا ہے تاکہ لوگ اپنے طریقہ زندگی کو بدلیں۔ اللہ کی رحمتیں نازل ہوں اللہ کی دعوت کو قبول کرنیوالوں کو مسلمان اور انکار کرنے والوں کو کافر کہتے ہیں۔ ان سب نے کہا ہمارے لیے وہی کافی ہے جس پر ہم نے باپ دادا کو پایا: اگر باپ داد شرک کرنیوالے ہوں، ہدیات یافتہ نہ ہوں تو کیا پھر بھی ان کی بات مانی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں حق بات مانو جس نے تمہیں زندگی اور ضابطہ زندگی دیا۔ رسول کو بھیجا اس کی پیروی کرو کھانے پینے کی چیزوں میں تھوڑی سی گندگی بھی قبول نہیں کرتے تو زندگی کیوں اللہ کے حکم کے مطابق نہیں گزارتے ۔ تقلید آباء کی صورت میں یہ غلطی نسل در نسل منتقل ہوتی چلی جاتی ہے۔ لہٰذا ہر عقیدہ و عمل کتاب و سنت کے مطابق ہو، ورنہ محض تقلید آباء کا منطقی نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ گمراہی کی طر ف دھکیل دے گی۔