سورة المآئدہ - آیت 95

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ۚ وَمَن قَتَلَهُ مِنكُم مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ أَوْ عَدْلُ ذَٰلِكَ صِيَامًا لِّيَذُوقَ وَبَالَ أَمْرِهِ ۗ عَفَا اللَّهُ عَمَّا سَلَفَ ۚ وَمَنْ عَادَ فَيَنتَقِمُ اللَّهُ مِنْهُ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ ذُو انتِقَامٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اے ایمان والو! (وحشی) شکار کو قتل مت کرو جب کہ تم حالت احرام میں ہو (١) اور جو شخص تم میں سے اس کو جان بوجھ کر قتل کرے گا (٢) تو اس پر فدیہ واجب ہوگا جو کہ مساوی ہوگا اس جانور کے جس کو اس نے قتل کیا ہے (٣) جس کا فیصلہ تم سے دو معتبر شخص کردیں (٤) خواہ وہ فدیہ خاص چوپایوں میں سے ہو جو نیاز کے طور پر کعبہ تک پہنچایا جائے (٥) اور خواہ کفارہ مساکین کو دے دیا جائے اور خواہ اس کے برابر روزے رکھ لئے جائیں (٦) تاکہ اپنے کئے کی شامت کا مزہ چکھے، اللہ تعالیٰ نے گزشتہ کو معاف کردیا اور جو شخص پھر ایسی ہی حرکت کرے گا تو اللہ انتقام لے گا اور اللہ زبردست ہے انتقام لینے والا۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ تعالیٰ ان خوش نصیبوں سے خطاب فرمارہے ہیں جنھوں نے اللہ کو پہچان لیا مان لیا کہ حالت احرام میں شکار نہیں کرنا، لیکن جان بوجھ کر شکار کیا تو اس پر فدیہ دینا ہوگا۔ غلطی سے شکار کرنے پر کچھ نہیں۔ مساوی جانور سے مراد: قدوقامت میں مساوی ہونا ہے۔ مثلاً اگر ہرن کو قتل کیا تو اس کی مثل (مساوی) بکری ہے گائے کی مثل نیل گائے ہے البتہ جس جانور کا مثل نہ مل سکے وہاں اس کی قیمت بطور فدیہ مکہ پہنچادی جائے گی۔ اور یہ فیصلہ دوعادل آدمی کریں گے۔ اس قیمت سے غلہ خرید کر مکہ کے مساکین میں ایک مُدّکے حساب سے تقسیم کردیا جائے گا۔ ہرن کے بدلے بکری کو ذبح کرکے مکہ میں تقسیم کیا جائے گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ایک قول کے مطابق اگر جانور کی مثل جانور یعنی ہرن کے مثل بکری نہ ملے تو چھ مساکین کو کھانا کھلانا ہے یا تین روزے رکھنے ہیں۔ یہ سزا پہلی دفعہ شکار پر ہے اگر دوبارہ کرے گا تو اللہ بدلہ لے گا۔ بارہ سنگھا کے مقابل گائے ہے یا بیس مساکین کو کھانا یا بیس روزے رکھیں۔ شتر مرغ یا گورخر کے مقابل اونٹ ہے نہ ملنے کی صورت میں تیس مساکین کو کھانا یا تیس دن کے روزے رکھنے ہیں۔ (ابن کثیر: ۲/۱۷۹)