يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے سب گندی باتیں، شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو (١)
حرمت شراب کا حکم : سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دعا کی یا اللہ ! شراب کے بارے میں ہمارے لیے شافی بیان واضح فرما تو سورۂ بقرہ کی یہ آیت نازل ہوئی ﴿يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَيْسِرِ﴾ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بلاکر ان پر یہ آیت پڑھی گئی پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دعا کی یا اللہ ہم پر شراب کے بارے میں شافی بیان نازل فرما ’’تو سورۃ النساء کی یہ آیت نازل ہوئی ﴿يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ﴾ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو شراب کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ۔ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بلاکر ان پر یہ آیت پڑھی گئی۔ آپ نے پھر دعا کی یا اللہ ! ہمارے لیے شراب کے بارے میں شافی بیان واضح فرما۔ تو سورۃ المائدہ کی یہ آیت نازل ہوئی (اے ایمان والو! یہ شراب، یہ جوا، یہ آستانے اور پانسے سب گندے شیطانی کام ہیں لہٰذا ان سے بچتے رہو)۔ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بلاکر ان پر یہ آیت پڑھی گئی تو انھوں نے کہا’’ہم باز آئے، ہم باز آئے۔ (بخاری: قبلہ ح: ۴۶۱۶) شراب کے بارے میں یہ تیسرا حکم ہے ۔ پہلے اور دوسرے حکم میں صاف طور پر ممانعت نہیں فرمائی گئی۔ لیکن یہاں اُسے اور اس کے ساتھ جوا، پرستش گاہوں، یا استھانوں اور فال کے تیروں کو رجس(پلید) اور شیطانی کام قراردے کر صاف لفظوں میں ان سے اجتناب کا حکم دے دیا گیا۔ علاوہ ازیں اس میں شراب اور جوا کے مزید نقصانات بیان کرکے سوال کیا گیا ہے کہ اب بھی باز آؤ گے یا نہیں جس سے اہل ایمان کی آزمائش مقصود ہے۔ چنانچہ جو اہل ایمان تھے وہ تو اللہ کی منشا سمجھ گئے اور کہا کہ اے اللہ ہم باز آگئے۔ اور یہ حکم سنتے ہی سب نے شراب کے مٹکے توڑ دیے اور مدینے کی گلیاں شراب سے بھر گئیں۔ لیکن آج کے بعض ’’دانشور‘‘ کہتے ہیں کہ اللہ نے شراب کو حرام کہاں قرار دیا ہے۔ یعنی شراب کو رجس (پلیدی) اور شیطانی عمل قرار دے کر اس سے اجتناب کا حکم دینا، اجتناب کو باعث فلاح قرار دینا ان دانشوروں کے نزدیک حرمت کے لیے کافی نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پلید کام بھی اللہ کے نزدیک جائز ہے شیطانی کام بھی جائز ہے جس کے متعلق اللہ اجتناب کا حکم دے وہ بھی جائز ہے اور جسکا چھوڑ دینا باعث فلاح اور جس پر عمل کرنا بھی جائز ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ شراب ام الخبائث ہے: شراب پینے والے اور بہت سی قباحتوں میں پھنس جاتے ہیں، مثلاً جوا، جواری کو معاشرہ میں معزز فرد نہیں سمجھا جاتا ہے، جوئے کی کئی اقسام ہیں جو سب حرام ہیں۔ مثلاً لاٹری، سٹہ بازی، انعامی بانڈ،ریس لگانا، بیمہ کی بعض شکلیں، چوسر اور شطرنج وغیرہ۔ بت اور آستانے: ایسے مقامات جن کو مقدس سمجھ کر وہاں پر نذریں نیازیں چڑھائی جائیں لہٰذا بت پرستی، بت فروشی، بت گری سب چیزوں کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شراب، جوئے، آستانے کے تقدس اور تیروں کے ذریعے سے فال لینے سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ تاکہ اللہ کی نافرمانی سے بچ سکیں۔ پندرہ چیزیں: (۱) جس وقت غنیمت کو دولت بنایا جائے۔ (۲) زکوٰۃ کو ٹیکس بنا لیا جائے۔ (۳) بیوی کی بات مانے ماں کی نافرمانی کرے۔ (۴) دوست سے اچھا سلوک کرے اور باپ سے جفا کرے۔ (۵) آوازیں مسجد سے بلند ہونا شروع ہوجائیں۔ (۶)قوم کا چوہدری وہ ہوجو رذیل ہو۔ (۷) آدمی کی عزت اس کے شر کے اندیشے کی وجہ سے کی جائے ۔ (۸) گانے بجانے والوں سے تعلق بنائے جائیں۔ (۹) امانت کو مال غنیمت بنالیا جائے۔ (۱۰) پہلے لوگوں کو بُرا بھلا کہا جائے پھر انتظار کرو صورتیں مسخ ہونے، زمین میں دھنسنے اور تیز و تند سرخ آندھی کا ۔