وَحَسِبُوا أَلَّا تَكُونَ فِتْنَةٌ فَعَمُوا وَصَمُّوا ثُمَّ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ثُمَّ عَمُوا وَصَمُّوا كَثِيرٌ مِّنْهُمْ ۚ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ
اور سمجھ بیٹھے کہ کوئی پکڑ نہ ہوگی پس اندھے بہرے بن بیٹھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی اس کے بعد بھی ان میں سے اکثر اندھے بہرے ہوگئے (١) اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو بخوبی جانتا ہے۔
انھوں نے گمان کیا کہ اب کوئی خرابی نہیں آئے گی، ا س ذہنی سوچ کی وجہ سے نہ وہ حق بات سنتے اور نہ دیکھتے تھے۔ انھوں نے سمجھ رکھا تھا کہ ہم انبیاء کی اولاد ہیں ہم جو بھی کرلیں ہم پر عذاب الٰہی نہیں آئے گا، اس عقیدہ نے انھیں ہر طرح کے جرائم پر دلیر بنادیا تھا۔ پھر ان پر بخت نصر کی صورت میں قہر الٰہی نازل ہو ا جس نے انکی سلطنت کوتہس نہس کردیا۔ بیشمار افراد کو قیدی بناکر اپنے ساتھ لے گئے وہ قید و بند کی سختیاں جھیلتے رہے۔ آخر اللہ کی طرف رجوع کیا اور اللہ نے ان کی خطائیں معاف کردیں۔ جب اللہ نے مہربانی فرمائی تو عیش و آرام میں پڑکر پہلے سے زیادہ کفر و سرکشی میں بڑھ گئے ۔ حضرت زکریا حضرت یحییٰ کو قتل کردیا، حضرت عیسیٰ کو سولی پر چڑھانے کی مقدور بھر کوشش کی اللہ سب دیکھ رہا ہے یہ جو کرتے ہیں۔