قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَىٰ شَيْءٍ حَتَّىٰ تُقِيمُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ ۗ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۖ فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب! تم دراصل کسی چیز پر نہیں جب تک کہ تورات و انجیل کو اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اتارا گیا قائم نہ کرو، جو کچھ آپ کی جانب آپ کے رب کی طرف سے اترا ہے وہ ان میں سے بہتوں کو شرارت اور انکار میں اور بھی بڑھائے گا (١) ہی تو آپ ان کافروں پر غمگین نہ ہوں۔
اس سے معلوم ہوا کہ دین کی اصل صرف کتاب اللہ پر ایمان لانے سے ہے تورات اور انجیل کا تقاضا ہے کہ رسول اللہ کے دین کو قائم کرو چنانچہ یہود و نصاریٰ کو مخاطب کرکے کہاجارہا ہے کہ تم عقائد و اعمال کو اللہ کی نازل کردہ کتاب پر پیش کرکے خود ہی فیصلہ کرلو کہ تم ایمان لانے کے دعوے میں کس حد تک سچے ہو۔ اور جو حق قبول نہیں کرتے ان کی سرکشی میں اضافہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا کہ تم کافر قوم پر افسوس نہ کرو۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّ شِفَآءٌ وَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ فِيْ اٰذَانِهِمْ وَقْرٌ وَّ هُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى اُولٰٓىِٕكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَّكَانٍ بَعِيْدٍ﴾ (حم السجدۃ: ۴۴) ’’فرمادیجئے یہ قرآن ایمان والوں کے لیے ہدایت و شفا ہے اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں گرانی (بہرہ پن) ہے اور یہ ان پر اندھا پن ہے گرانی کی وجہ سے گویا ان کو دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے۔ اور فرمایا: ﴿وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ وَ لَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا﴾ (بنی اسرائیل: ۸۲) ’’اور ہم قرآن کے ذریعے سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔ اور ظالموں کے حق میں تو اس سے نقصان ہی بڑھتا ہے۔