يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھرجائے (١) تو اللہ تعالیٰ بہت جلد ایسی قوم کو لائے گا جو اللہ کی محبوب ہوگی اور وہ بھی اللہ سے محبت رکھتی ہوگی (٢) وہ نرم دل ہونگے مسلمانوں پر سخت اور تیز ہونگے کفار پر، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ بھی نہ کریں گے (٣) یہ ہے اللہ تعالیٰ کا فضل جسے چاہے دے، اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا اور زبردست علم والا ہے۔
اے ایمان والو! ایک دفعہ پھر سچے ایمان کی بات کی ہے۔ ایمان کیا ہے: جان لینا، مان لینا، دل میں اترنا اور عمل کا بدل جانا ایمان ہے۔ انسان کچھ بنیادی حقائق کو جانتا ہے، پھر ان کو مانتا ہے پھر وہ حقیقتیں دل میں اُترتی ہیں، پھر عمل ہوتا ہے مثلاً جیسے اپنا وجود کہاں سے آیا، کس نے پیدا کیا، مالک کائنات جب چاہے گا اس کو ختم کردے گا، پیدا کرنے والے نے ہی انسان کو زندگی دی، عمل کی توفیق دی اور اسی نے اس زندگی کو ختم کردینا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے مطابق فرمایا جو دین سے پھر تا ہے: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو عرب کے اکثر قبائل نے یہ سمجھا کہ اسلام کو جتنی کامیابیاں و کامرانیاں نصیب ہوئیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی وجہ سے ہوئیں جن پر مسلمانوں کی ہدایت کے لیے ہر وقت وحی نازل ہوا کرتی تھی۔ اب چونکہ آپ وفات پاچکے ہیں اس لیے اب کفر کو غلبہ نصیب ہوگا۔ اس وجہ سے بہت سے قبائل مرتد ہوگئے اور انھوں نے زکوٰۃ دینے سے بھی انکار کردیا۔ اس فتنہ کو حضرت ابوبکر نے ختم کیا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ’’جب لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا ’’اللہ کی قسم! میں اس شخص سے ضرور لڑونگا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا اس لیے کہ زکوٰۃ (مال کا حق) ہے اور (جیسے نماز جسم کا حق ہے) اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ مجھے بکری کا ایک بچہ بھی نہ دیں گے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے تو میں ان سے ضرور لڑونگا۔ (بخاری: ۶۹۲۵) عنقریب اللہ ایسے لوگ لے آئے گا سے مراد: مرتدین کے مقابلے میں جس قوم کو اللہ تعالیٰ کھڑا کرے گا۔ ان میں چار نمایاں صفات بیان کی جارہی ہیں۔ (۱) اللہ سے محبت کرنا اور اسکا محبوب ہونا۔ (۲) اہل ایمان کے لیے نرم اور کفار پر سخت ہونا (۳)اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ (۴)اور اللہ کے بارے میں کسی کی ملامت سے نہ ڈرنا، صحابہ کرام ان خوبیوں کا منہ بولتا ثبوت تھے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انھیں دنیا و آخرت کی سعادتوں سے مشرف فرمایا اور دنیا میں ہی اپنی رضا مندی کی سند سے نواز دیا۔ ملامت سے نہ ڈرنا: یہ ان اہل ایمان کی چوتھی صفت ہے یعنی اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری میں انھیں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ ہوگی، یہ بڑی اہم صفت ہے معاشرے میں جن برائیوں کا چلن عام ہوجائے، ان کے خلاف نیکی پر استقامت اور اللہ کے حکموں کی اطاعت اس صفت کے بغیر ممکن نہیں، ورنہ کتنے ہی لوگ ہیں جو بُرائی، معصیت الٰہی اور معاشرتی خرابیوں سے اپنا دامن بچانا چاہتے ہیں، لیکن ملامت گروں کی ملامت برداشت کرنے کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتے، نتیجتاً وہ برائیوں کی دلدل سے نکل نہیں پاتے،اور حق و باطل سے بچنے کی توفیق سے محروم ہی رہتے ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جن کو یہ صفات نصیب ہوجائیں تو یہ اللہ کا ان پر خاص فضل و کرم ہے۔