سورة المآئدہ - آیت 45

وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ ۚ فَمَن تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهُ ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

اور ہم نے یہودیوں کے ذمہ تورات میں یہ بات مقرر کردی تھی کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ بدلے آنکھ اور ناک بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے (١) پھر جو شخص اس کو معاف کر دے تو وہ اس کے لئے کفارہ ہے اور جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے کے مطابق نہ کریں، وہ ہی لوگ ظالم ہیں۔ (٢)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

مدینہ میں یہودیوں کے تین قبائل آباد تھے، بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ ان میں سے بنو نضیر اور بنو قریظہ میں چپقلش رہتی تھی، بنو نضیر طاقتور اور مالدار تھے اگر بنو قریظہ کے ہاتھوں بنو نضیر (طاقتور)کا کوئی آدمی قتل ہوجاتا تو بنو نضیر بنو قریظہ سے دوگنی دیت وصول کرتے جبکہ خود اس سے نصف دیتے۔ اس طرح وہ تورات کے دو حکموں کی خلاف ورزی کرتے کیونکہ تورات میں قصاص کا حکم تو تھا مگر دیت کا نہیں تھا۔ دوسر ابنو نضیر کے خون کی دیت بنو قریظہ سے دوگنی تھی۔ ایک دفعہ بنو نضیر کا ایک آدمی بنو قریظہ کے ہاتھوں قتل ہوگیا تو انھوں نے دوگنی دیت کا مطالبہ کردیا بنو قریظہ نے جواب دیا کہ اب وہ وقت گئے اب ہم فیصلہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت سے لیں گے، کیونکہ یہود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا کہنے کے باوجود یہ یقین رکھتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں گے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم الٰہی کے مطابق برابر دیت کا فیصلہ دیا۔ اسلامی شریعت: میں مساوات کا اصول۔ جان کے بدلے جان اور عضو کے بدلے عضو۔ یہی احکام تورات میں بھی تو تھے۔ لیکن تورات میں کفارہ یعنی معافی نہیں تھی۔ جرم کی سزا، برابر کی سزا ہوگی۔ جس شخص کو جسمانی تکلیف دی جائے اور وہ معاف کردے تو اللہ اس کے درجات بلند کردے گا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص قتل ہوگیا تو آپ نے قاتل کو مقتول کے وارث کے حوالے کردیا۔ قاتل کہنے لگا ’’یارسول اللہ! اللہ کی قسم میرا قتل کا ارادہ نہ تھا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتول کے وارث سے فرمایا ’’اگر قاتل اپنے بیان میں سچا ہے اور تو نے اُسے قتل کردیا تو تو دوزخ میں جائے گا۔‘‘ چنانچہ وارث نے اُسے چھوڑ دیا۔ (ترمذی: ۱۴۰۷) ’’ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘ اللہ کی شریعت کے مقابلے میں کوئی اور قانون لیکر آتے ہیں، وہ ظالم ہیں اپنے آپ پر بھی ظلم کرتے ہیں اور تمام لوگوں پر بھی۔