صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ
ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا (١)۔ ان کا نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کا۔ (٢)
یہ وہ نعمت ہے جس سے دنیا و آخرت کی کامیابی کا راستہ مل گیا۔ جنت کا راستہ مل گیا۔ انعام یافتہ لوگ: یہ انبیاء شہدا، صدیقین، صالحین، اللہ کا خوف رکھنے والے، غیب پر ایمان رکھنے والے، ركوع ، سجدہ كے لیے جھکنے والوں کے ساتھ جھکنے والے۔ والدین کے ساتھ سلوک کرنے والے، عفو و درگزر کرنے والے، بھلائی کے کام کرنے والے دین کی دعوت دینے والے۔ تلاوت کرنے والے اور اولاد سے اللہ کے حق میں عہد لینے والے ہیں۔ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ جن پر اللہ کا غصہ ہوا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔ یہ اللہ کا ڈرنہ رکھنے والے، اپنی خواہشات پر چلنے والے، آخرت کو بھول جانے والے، بے حیائی کے کام کرنے والے، شرک کرنے والے، سود کھانے والے اور شر کو پھیلانے والے ہیں پھر بالآخر ایسے لوگوں پر دشمن غالب آجاتے ہیں۔ اللہ کا عذاب: پہلی قوموں پر بھی اللہ نے اپنا عذاب نازل کیا۔ انھیں بندر اور سُور بنادیا۔ آج بھی سونامی، زلزلہ اللہ کے عذاب کی ہی نشانیاں ہیں۔ اللہ سے نہ ڈرنے والے حدود شرعی سے نکل جاتے ہیں، آخرکار ذلت و پستی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ آج ہمارا معاشرہ بھی ان خرابیوں سے بھرا پڑا ہے۔مفسرین نے لكھا ہے كہ مغضوب علیہم سے مراد یہود ہیں۔ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ اور نہ گمراہ لوگوں کے راستے پر۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ کی ہدایت آجانے کے بعد اس کو گم کردیا۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے احکامات کو بدل دیا۔ مراد عیسائی ہیں، جنھوں نے اپنا راستہ بدل دیا ۔ ذیل میں گمراہوں كی چند نشانیاں درج كی جاتی ہیں: ـ(۱)ـدین میں نئی نئی باتیں نکالنے والے۔ (۲) شعور سے کام نہ لینے والے ۔ (۳) یوم آخرت کو نہ ماننے والے۔ (۴) عہد کو توڑنے والے ۔ (۵) فساد پھیلا کرنیکی کا دعویٰ کرنے والے۔ (۶) اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان کو نہ ماننے والے۔ (۷) دل میں برائی اور زبان پر اچھائی ركھنے والے۔ (۸) دو چہروں والے اور حق سے اندھے، گونگے، بہرے۔ (۹) قطع رحمی کرنے والے۔ ( ۱۰) اللہ تعالیٰ سے رشتہ توڑنے والے۔ گمراہی: گمراہی دور جاہلیت میں بھی تھی اور آج کے دور میں بھی ہے نظام معاشرت، نظام تعلیم، والدین کے حقوق اور نجی و اجتماعی تقریبات میں اسلامی رنگ نہ ہونا اور نظام معیشت میں سودی نظام كا پایا جانا گمراہی نہیں تو اور كیاہے.....؟! غرض آج ہم نے زندگی كے ہر شعبہ میں ہدایت كا راستہ گم کردیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت فرمائی: میری نصیحت اور خلفاء کی نصیحت قرآن کو نہ چھوڑنا، جو افراد نیک کام کے ذمہ دار ہیں انکی اطاعت کرنا، دین میں بدعات سے پرہیز کرنا، جس نے ہدایت کی طرف بلایا اس کو سب کے نیک اعمال کا بدلہ ملے گا، اور جس نے برائی کی طرف بلایا اُسے سب کی برائی کا بدلہ ملے گا۔