وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاءَ وَجَعَلَكُم مُّلُوكًا وَآتَاكُم مَّا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِينَ
اور یاد کرو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا، کہ اے میری قوم کے لوگو! اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا ذکر کیا کہ اس نے تم سے پیغمبر بنانے اور تمہیں بادشاہ بنا دیا (١) اور تمہیں وہ دیا جو تمام عالم میں کسی کو نہیں دیا (٢)۔
بنی اسرائیل مصر میں نہایت ذلت سے غلامانہ زندگی بسر کررہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔ اور انھیں عظیم سلطنت بھی عطا فرمائی اور اس زمانہ میں عزت کی زندگی۔ دینی اور دنیاوی قیادت بھی ان کے ہاتھ میں تھی۔ لیکن بعد میں ان کی نافرمانیوں کی بنا پر وہ عزت ان سے چھین لی گئی ۔ پھر جب عیسیٰ علیہ السلام مبعوث ہوئے تو بنی اسرائیل لاکھوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود فرعون کے تحت محکومانہ اور نہایت ذلت کی زندگی گزار رہے تھے۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان کو فرعون کی غلامی سے نجات دلائی اور تمہیں وہ کچھ دیا جو اقوام عالم میں سے کسی کو نہ دیاتھا۔ بادشاہت بھی انعام تھی، اور بیشمار معجزات سے بھی بنی اسرائیل کو نوازا مثلاً من و سلویٰ کا نزول، بادلوں کا سایہ، فرعون سے نجات کے لیے دریا میں راستہ بنا دیا وغیرہ۔ لیکن پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و بعثت کے بعد اب یہ مقام فضیلت اُمت محمدیہ کو حاصل ہوگیا ہے۔ ﴿كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ﴾ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ﴾ (آل عمران: ۱۱۰) تم بہترین اُمت ہو جسے نوعِ انسانی کے لیے بنایا گیا ہے تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے، برائی سے روکتے ہو اوراللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ کو اس مقصد کے لیے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ وہ اپنے خیر اُمت ہونے کا اعزاز برقرار رکھ سکے۔