يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِّمَّا كُنتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ ۚ قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ
اے اہل کتاب! یقینًا تمہارے پاس ہمارا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آچکا جو تمہارے سامنے کتاب اللہ کی بکثرت ایسی باتیں ظاہر کر رہا ہے جنہیں تم چھپا رہے تھے (١) اور بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے، تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور اور واضح کتاب آچکی ہے۔ (٢)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب نے بے شمار آیات کی یاتو تاویل کر ڈالی تھی یا انھیں لوگوں سے چھپایا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کو ایسی آیات کا علم عطا کیا تھا پھر ایسی بہت سی آیات تھیں جن کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود سے ذکر ہی نہیں کیا کیونکہ انھیں بتانے کی حقیقی ضرورت نہیں تھی اور بہت سی ایسی آیات تھیں جن کا بتانا دین حق کے قیام کے لیے ناگزیر تھا مثلاً رجم کی سزا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی بشارت، سود کی حرمت کا حکم، بنیادی عقیدہ توحید۔ آل عمران ۱۸۷: میں فرمایا ان اہل کتاب کو وہ عہد بھی یاد دلاؤ جو اللہ نے تم سے لیا تھا، کہ تمہیں کتاب کی تعلیمات لوگوں کو بتانا ہوں گی مگر انھوں نے پوشیدہ رکھا تھا اور کتاب اللہ کو پسِ پشت ڈال دیا۔ قرآن نور مبین ہے: قرآن میں نور کا لفظ کتب سماویہ کے لیے آیا ہے۔ (۱) [النساء: ۱۷۴] میں فرمایا ہم نے تمہاری طرف نور مبین نازل کیا۔ (۲) [المائدہ: ۴۶] میں فرمایا ہم نے ہی تورات اتاری جس میں ہدایت اور نور تھا (تورات کے لیے)۔ (۳) [المائدہ: ۴۶] اور ہم نے عیسیٰ کو انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور نور تھا (انجیل کے لیے) (۴) [الانعام: ۶۹] میں فرمایا: وہ کتاب کس نے اتاری جو موسیٰ لائے تھے جو لوگوں کے لیے نور اور ہدایت تھی (تورات کے لیے) ۔ (۵) [الاعراف: ۱۵۷] میں فرمایا اور اس نور کی پیروی کی جسے ہم نے آپ رسول اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اتار اہے (قرآن کے لیے) ۔ (۶) [الشوریٰ: ۵۲] میں فرمایا: لیکن ہم نے اسے نور بنایا جس سے ہم جسے چاہے ہدایت دیتے ہیں۔ (قرآن کے لیے) (۷) [التغابن: ۸] میں فرمایا ’’تو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس نور پر بھی جسے ہم نے اتارا ہے (قرآن کے لیے) اس کے علاوہ تمام انبیاء کو ہر مقام پر بشر ہی کہا گیا ہے ایک مقام پر قرآن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سراجُ المنیرا(روشنی دینے والا چراغ) بھی کہا گیا ہے مراد نور، نبوت، نور ہدایت۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خود کہلوایا ’’کہ میں بھی تمہاری طرح ایک بشر ہوں‘‘ یہ تفصیل اس لیے لکھی ہے کہ جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ (نور من نور اللّٰہ) ہیں۔(ماخوذ از تیسیر القرآن ) ۔ ہدایت کا سرچشمہ قرآن ہے: نور مبین یہ ایسی کتاب ہے جس سے انسان ہر چیز کو سیکھنے کے قابل ہوجاتا ہے ذہن بالکل صاف ہوجاتا ہے۔ اور ایسا روشن ہوتا ہے کہ مقصد واضح ہوجاتا ہے اور انسان کا نفس اس راستے پر چلنے پر راضی ہوجاتا ہے۔ ابوذر رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تقویٰ اختیار کرو یہ دین کا سرا ہے اور قرآن کی تلاوت کرو ۔ زندگی میں تیرے لیے نور ہوگا اور آخرت میں خزانہ ہوگا۔ (ابن کثیر: ۱/۹۱) قرآن واضح کتاب ہے: زندگی کی حقیقت، انجام، زندگی گزارنے کے طور طریقے واضح دکھائی دیتے ہیں۔ سورہ یونس میں فرمایا: لوگو! تمہارے پاس رب کی طرف سے نعمت آگئی، دلوں کے امراض کی شفاء جو قبول کرے راہنمائی ہے لوگوں سے کہو کہ یہ اللہ کا فضل اور رحمت ہے جو اس کتاب کی ذمہ داریوں کو اپنی ذات اور دوسروں کے لیے قبول کرے۔ سورۂ قمر: ۱۷ میں ارشاد ہے: ہم نے اس قرآن کو آسان کردیا پھر ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا۔