وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا ۖ وَقَالَ اللَّهُ إِنِّي مَعَكُمْ ۖ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنتُم بِرُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۚ فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ
اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد و پیماں لیا (١) اور انہی میں سے بارہ سردار ہم نے مقرر فرمائے (٢) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یقیناً میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نماز قائم رکھو گے اور زکوٰۃ دیتے رہو گے اور میرے رسولوں کو مانتے رہو گے اور ان کی مدد کرتے رہو گے اور اللہ تعالیٰ کو بہتر قرض دیتے رہو گے تو یقیناً میں تمہاری برائیاں تم سے دور رکھوں گا اور تمہیں ان جنتوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے چشمے بہہ رہے ہیں، اب اس عہد و پیمان کے بعد بھی تم میں سے جو انکاری ہوجائے وہ یقیناً راہ راست سے بھٹک گیا۔
جب اللہ نے مومنوں کو وہ عہد پورا کرنے کی تلقین کی جو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تھا اور انھیں قیام حق، اور شہادت عدل کا حکم دیا تھا اور انھیں وہ انعام یاد کرائے جو ان پر ظاہراً باطناً ہوئے اور خاص طور پر انھیں حق و سچائی کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائی تو اس مقام پر اب اس عہد کا ذکر فرمایا جارہا ہے جو بنی اسرائیل سے لیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ چار باتوں سے مشروط تھا۔ (۱) بنی اسرائیل نماز قائم کرتے رہیں۔ (۲) زکوٰۃ ادا کرتے رہیں۔ (۳) بعد میں جو رسول مبعوث ہوں ان پر ایمان لائیں اور مال و جان سے ان کی مدد بھی کریں۔ (۴) لوگوں کو قرضہ حسنہ دیتے رہیں۔ اللہ کا وعدہ تھا کہ اگر وہ ذمہ داری پوری کرتے ہوئے ان پر عمل کریں گے تو یقینا اللہ ان کے ساتھ ہوگااور ان کی ہر معاملہ میں مدد فرمائے گا۔ لیکن وہ اس میں ناکام رہے۔ یہاں گویا یہ بالواسطہ مسلمانوں کو تنبیہ ہے کہ تم بھی کہیں بنی اسرائیل کی طرح عہد و میثاق کو پامال کرنا شروع نہ کردینا۔ بنی اسرائیل کے نقیب: نقیب کے معنی نگرانی اور تفتیش کرنے والا ہے۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں موجود تھے۔ جب بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے پانی کا مطالبہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ اپنا عصا پتھر پر مارو تو بارہ چشمے پھوٹ پڑیں گے یہ اللہ تعالیٰ کا بنی اسرائیل پر انعام تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم مذکورہ بالا نیکی کے بڑے بڑے کام کرو گے پھر اگر تم سے کچھ برائیاں سرزد ہوگئیں تو اللہ تعالیٰ ان پر گرفت نہیں فرمائے گا۔ جو سیدھے راستے سے بھٹک گیا: مراد جو متوازن معتدل ا ورافراط و تفریط سے پاک راستہ ہے جیسے اللہ علیم و حکیم ہستی نے بتایا ہے جو تمام حقائق سے پوری طرح آگاہ ہے کہ اللہ نے اپنی خاص مہربانی سے خود ہی انسان کو یہ راہ بتادی جس سے یہ دنیا میں بھی پریشانی سے بچ سکتے ہیں اور آخرت میں بھی کامیابیوں اور کامرانیوں سے ہمکنار ہونگے۔