يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہوجاؤ، راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ (١) کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کر دے (٢) عدل کیا کرو جو پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔
انصاف کے ساتھ گواہی: سورۃ النساء کی آیت نمبر ۱۳۵میں گزر چکا ہے کہ تم اللہ کی خاطر انصاف پر رہتے ہوئے گواہی دیا کرو خواہ یہ گواہی تمہارے اپنے خلاف ہو یا تمہارے والدین اور اقربا کے خلاف جارہی ہو۔ اس آیت میں یہ سمجھا جارہا ہے کہ تم سابقہ دشمنیوں اور قبائلی عصبیتوں سے بالکل بے نیاز ہوکر انصاف کی گواہی دیا کرو کسی قوم کی دشمنی یا کسی شخص کی دشمنی تمہاری گواہی اور تمہارے عدل و انصاف پر ہرگز اثر انداز نہ ہونی چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک عادلانہ گواہی کی کتنی اہمیت ہے اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میرے باپ نے مجھے عطیہ دیا تو میری والدہ نے کہا ’’اس عطیہ پر آپ جب تک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ نہیں بنائیں گے میں راضی نہیں ہوں گی۔ چنانچہ میرے والد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو اسی طرح کا عطیہ دیا ہے؟ انھوں نے نفی میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو! اور اولاد کے درمیان انصاف کرو۔ اور فرمایا کہ میں ظلم پر گواہ نہیں بنوں گا۔ (بخاری: ۲۵۸۷)