وَاذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمِيثَاقَهُ الَّذِي وَاثَقَكُم بِهِ إِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
تم پر اللہ کی نعمتیں نازل ہوئی ہیں انہیں یاد رکھو اور اس کے اس عہد کو بھی جس کا تم سے معاہدہ ہوا ہے جبکہ تم نے سنا اور مانا اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ دلوں کی باتوں کو جاننے والا ہے۔
اللہ کا احسان: قبائلی برائیوں اور عداوتوں میں پھنسا کر تمہاری زندگی تم پر حرام کردی گئی تھی اور تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اور ان حالات سے نجات کی تمہیں کوئی راہ نظر نہیں آتی تھی ۔ پھر اللہ نے تم پر پے درپے کئی انعامات کیے تمہیں اسلام کی توفیق بخشی اور پھر اسی اسلام کی وجہ سے تمہاری دیرینہ عداوتوں کا خاتمہ کرکے تمہیں ایک دوسرے کا مونس و غم خوار اور بھائی بھائی بنا دیا۔ سمعنا واطعنا (ہم نے سنا اور اطاعت کی) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اپنے اس پختہ عہد کو جو تم نے عقبہ کی رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا کہ ہم ہر حال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کریں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت عقبہ کے بعد بھی جس شخص سے بیعت لی اس عہد پر بیعت لی اورخلفائے راشدین بھی اس عہد پر مسلمانوں سے بیعت لیتے رہے۔ امیر کی اطاعت اور نظم و نسق سے ہی اُمت میں اتحاد قائم رہ سکتا ہے اس لیے آپ نے امیر کی اطاعت کی بہت تاکید فرمائی ہے۔ حضرت عبادہ بن صامت نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات پر بیعت کی کہ آپ ہمیں جو حکم دیں گے ہم مانیں گے چاہے آسانی ہو یا تنگی ہو خواہ وہ ہمیں اچھے لگے یا ناگوار محسوس ہو۔ خواہ آپ دوسروں کو ہم پر ترجیح دیں اور جس کو بھی آپ امیر مقرر فرمائیں گے ہم اس کا حکم مانیں گے اس سے بحث نہیں کریں گے ہر صورت حق بات کہیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ (بخاری:۷۱۹۹) اللہ سے ڈر جاؤ: خفیہ راز بھی اس کے سامنے کھلے ہیں اور وہ سینوں کے راز بھی جانتا ہے تقویٰ دل میں ہوتا ہے اور اللہ دلوں کے حالات سے واقف ہے۔