الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
کل پاکیزہ چیزیں آج تمہارے لئے حلال کی گئیں اور اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لئے حلال ہے (١) اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال، اور پاکدامن مسلمان عورتیں اور جو لوگ تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ان کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں (٢) جب کہ تم ان کے مہر ادا کرو، اس طرح کہ تم ان سے باقاعدہ نکاح کرو یہ نہیں کہ اعلانیہ زنا کرو یا پوشیدہ بدکاری کرو، منکرین ایمان کے اعمال ضائع اور اکارت ہیں اور آخرت میں وہ ہارنے والوں میں سے ہیں۔
اہل کتاب کا کھانا: یعنی ذبیحہ پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اور جس سے خون بہ گیا ہو گویا ان کے مشینی ذبیحے حلال نہیں کیونکہ اس میں خون بہنے کی بنیادی شرط مفقودہے۔ ان کے دستر خوان پر پاکیزہ چیز ہو اور کوئی حرام چیز مثلاً شراب، سور کا گوشت وغیرہ نہ ہو۔ ایسی صورت میں ان کا کھانا تو درکنار ان کے برتن بھی استعمال کرنا جائز نہیں۔ دو ر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہودیوں اور عیسائیوں کا کم از کم اللہ اور آخرت پر ایمان ضرور تھا مگر آج کل اہل مغرب جن میں سے اکثر اپنے آپ کو عیسائی کہتے ہیں یہ لوگ دہریہ قسم کے ہوتے ہیں یا دین سے بیزار ہوتے ہیں اور ان میں اور غیر اہل کتاب میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کا کھانا مسلمانوں کے لیے کیسے جائز ہوسکتا ہے۔ کتابیہ عورت سے نکاح: کتابیہ عورت سے نکاح کی بھی وہی شرائط ہیں جو مسلمان عورتوں کے لیے ہیں۔ محض شہوت رانی نہ ہو بلکہ مستقل بنیادوں پر حق مہر ادا کرکے اور اعلانیہ نکاح ہو۔ کتابیہ عورت سے نکاح صرف اسی صورت میں جائز ہوگا جب کسی فتنہ کا خطرہ نہ ہو۔ مثلاً اگر ایک شخص کسی خوبصورت کتابیہ عورت سے شادی کے بعد اس کے دین کی طرف مائل ہوجائے ۔ ایمان کا ضیاع ہوجائے تو یہ شدید خسارے کا باعث ہوگا علاوہ ازیں آج کل اہل کتاب ویسے ہی اپنے دین سے بالکل بیگانہ، بیزار اور باغی ہیں اسی حالت میں کیا وہ واقعی اہل کتاب میں شمار بھی ہوسکتے ہیں۔ (واللہ اعلم)