يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ ۚ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَىٰ مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِّنْهُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۖ وَلَا تَقُولُوا ثَلَاثَةٌ ۚ انتَهُوا خَيْرًا لَّكُمْ ۚ إِنَّمَا اللَّهُ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ سُبْحَانَهُ أَن يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ ۘ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَكِيلًا
اے اہل کتاب اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جاؤ (٢) اور اللہ پر بجز حق کے کچھ نہ کہو، مسیح عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) تو صرف اللہ کے رسول اور اس کے کلمہ (کن سے پیدا شدہ) ہیں جسے مریم علیہا السلام کی طرف سے ڈال دیا گیا تھا اور اس کے پاس کی روح (١) ہیں اس لئے تم اللہ کو اور اس کے سب رسولوں کو مانو اور نہ کہو کہ اللہ تین ہیں (٢) اس سے باز آ جاؤ کہ تمہارے لئے بہتری ہے، اللہ عبادت کے لائق تو صرف ایک ہی ہے اور وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی اولاد ہو، اسی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کافی ہے کام بنانے والا۔
غلو کیا ہے: (۱) غُلو کا مطلب ہے کسی چیز کو اس کی حد سے بڑھا دینا۔ جیسے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور انکی والدہ کے بارے میں کیا کہ انھیں رسالت و بندگی کے مقام سے اٹھا کر الوہیت کے مقام پر فائز کردیا، اور ان کی اللہ کی طرح عبادت کرنے لگے، (۲) دین میں جو مقام اللہ کا ہے وہ کسی اور کو دے دینا غلو ہے۔ (۳) دین میں جس کا جو درجہ ہے اُسے بڑھا دینا مثلاً رسولوں کو، فرشتوں کو، حضرت عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا بنا دیا، (۴) ناپسندیدہ کام کو فرض کا درجہ دے دینا، (۵)حق سے تجاوز کرنا غلو ہے۔ (۶) دین کے بارے میں جو حد مقرر کی گئی ہے اُس سے آگے نکلنا۔ (۷) اللہ کی بجائے رسول اللہ سے دعائیں کرنا۔ (۸) رسول اللہ سے مدد مانگنا۔ (۹) حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مشکل کشا پکارنا۔ (۱۰) پیروں کو داتا کہنا۔ (۱۱) جو اپنی زندگی نہیں لوٹا سکتا وہ اوروں کو کیا دے سکتا ہے۔ (۱۲) رب کے کاموں کو انسانوں سے جوڑ دیا جائے تو یہ غلو ہے جیسے یہودیوں نے اپنے علما اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا۔ اُن کے حرام کو حرام اور حلال کو حلال مان لیا۔ اور عیسائیوں نے مسیح ابن مریم کو رب بنالیا حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کا حق نہیں دیا گیا۔ تم تین نہ کہو سے مراد: یعنی اللہ تو ایک ہے اس کی کوئی اولاد نہیں، اللہ ہی کافی اور حق ہے۔ کلمة اللہ سے مراد: حضرت مریم کے ذہن پر کلام نازل کیا کہ کسی مرد کے بغیر نطفہ قبول کرلو۔ اور حضرت مریم نے اس کو قبول کرلیا۔ روح القدس سے مراد: حضرت جبرائیل کے توسط سے اس کی مدد کی، خاص طریقہ کار اختیار کیا گیا، اگر حضرت آدم بغیر ماں کے وجود میں آسکتے ہیں تو حضرت عیسیٰ کیوں نہیں ماں سے پیدا ہوسکتے۔ عقیدہ تثلیث کیا ہے: (۱) باپ اللہ تعالیٰ۔ (۲) بیٹا حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔ (۳)روح القدس۔ عیسائیوں نے تین بنیادی حدود پار کیں۔ کلمة اللہ کلام صفت ہے اللہ کی صفت حضرت مریم میں داخل ہوئی جس سے حضرت عیسیٰ پیدا ہوئے ۔ روح من اللہ کو اللہ کی روح قرار دے دیا۔ روح القدس: اللہ کی پاک روح تھی جو حضرت عیسیٰ میں پھونکی۔ تین کا ایک یعنی یہ کسی ایک پر قائم نہیں رہتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ﴾ (آل عمران: ۵۹) ’’اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال حضرت آدم علیہ السلام کی طرح ہے اللہ نے اسے مٹی سے پیدا کیا اور حکم دیا کہ ہوجا اور وہ ہوگیا۔‘‘ زمین و آسمان کی موجودات میں سے کسی کا تعلق اللہ سے باپ اور بیٹے کا نہیں بلکہ محض مالک و مملوک کا تعلق ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیوں کے اس غُلو کے پیش نظر اپنی اُمت کو متنبہ فرمایا ’’تم مجھے اس طرح حد سے نہ بڑھانا جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو بڑھایا، میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں پس تم مجھے اس کا بندہ اور رسول ہی کہنا۔ (بخاری: ۳۴۴۵) لیکن افسوس امت محمدیہ بھی اس غُلو سے محفوظ نہ رہ سکی، اور اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے پیغمبر کو بلکہ نیک بندوں تک کو خدائی صفات سے متصف ٹھہرا دیا جو دراصل عیسائیوں کا وطیرہ تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ’’جس طرح ایک جوتا دوسرے جوتے کے برابر ہوتا ہے بالکل اسی طرح تم پچھلی امتوں کی پیروی کرو گے۔‘‘ (ترمذی: ۲۶۴۱) یعنی ان کے قدم بہ قدم چلو گے۔