تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ
ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ (خود) ہلاک ہوگیا (١)
ابولہب كا تعارف: ابولہب كا اصل نام عبدالعزیٰ تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كا سب سے بڑا حقیقی چچا تھا، نہایت ہی حسین وجمیل تھا، رنگ سیب كی طرح دمكتا تھا۔ اس وجہ سے اس كی كنیت ابولہب ہوئی۔ مالدار تھا مگر طبعاً بخیل تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی ولادت كی خبر اسے اس كی لونڈی ثوبیہ نے دی تو اس خوشی میں اس نے ثوبیہ كو آزاد كر دیا۔ (بخاری: ۴۹۷۲) سورت کی شان نزول: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم كو حكم ہوا كہ اپنے رشتہ داروں كو انذار اور تبلیغ كریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا پہاڑی پر چڑھ كر یَاصَاحبَاہ! كی آواز لگائی۔ اس طرح كی آواز خطرے كی علامت سمجھی جاتی ہے۔ چنانچہ اس آواز پر لوگ اكٹھے ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذرا بتلاؤ اگر میں تمہیں خبر دوں كہ اس پہاڑ كی پشت پر گھڑ سواروں کا ایك لشكر ہے جو تم پر حملہ آور ہوا چاہتا ہے تو کیا تم میری تصدیق كرو گے؟ انھوں نے كہا كیوں نہیں ہم نے كبھی آپ كو جھوٹا نہیں پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا كہ پھر میں تمہیں ایك بڑے عذاب سے ڈرانے آیا ہوں (اگر تم كفر وشرك میں مبتلا رہے) یہ سن كر ابو لہب نے كہا تیرے لیے ہلاكت ہو كیا تو نے ہمیں اس لیے جمع كیا تھا؟ جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔ (بخاری: ۴۹۷۲) ابو طالب كی حمایت: چند دن بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اپنے قرابتداروں كو مدعو كر كے اپنی دعوت ذرا كھل كر پیش كی جس كے نتیجہ میں آپ كے چھوٹے چچا ابو طالب نے كھل كر آپ كی حمایت كا اعلان كر دیا اور كہا كہ اللہ كی قسم! جب تك جان میں جان ہے ہم اس كی حفاظت كرتے رہیں گے، دوسری دعوت كا اتنا فائدہ ہوا كہ معززین بنو ہاشم میں كم از كم ایك آدمی (ابوطالب) ایسا پیدا ہو گیا کہ جس كی حمایت پر اعتماد كیا جا سكتا ہے۔ ابولہب كے دونوں ہاتھ تباہ ہوں: اس سے مراد اس كا نفس ہے، جزو بول كر كل مراد لیا گیا ہے، یعنی ہلاك و برباد ہو جائے۔ یہ بددعا ان الفاط كے جواب میں ہے جو اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے متعلق غصے اور عداوت میں بولے تھے۔ (وتب) اور وہ ہلاك ہوگیا۔ یعنی بددعا كے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اس كی ہلاكت اور بربادی كی خبر بھی دے دی۔ چنانچہ جنگ بدر كے چند روز بعد ہی عدسیہ بیماری میں مبتلا ہوا جس میں طاعون كی طرح گلٹی نكلتی ہے۔ اسی میں اس كی موت واقع ہوگئی، تین دن تك اس كی لاش یونہی پڑی رہی حتیٰ كہ سخت بدبودار ہوگئی۔ بالآخر اس كے لڑكوں نے بیماری كے پھیلنے اور عار و شرمندی كے خوف سے، اس كے جسم پر دور ہی سے پتھر اور مٹی ڈال كر اسے دفنا دیا۔ (ایسر التفاسیر)