لِإِيلَافِ قُرَيْشٍ
قریش کے مانوس کرنے کے لئے
ایلاف كے معنی: مانوس اور عادی بنانا، یعنی كام سے سستی اور نفرت كا دور ہو جانا، قریش كی گزر بسر كا ذریعہ تجارت تھی، سال میں دو مرتبہ ان كا قافلہ باہر جاتا اور وہاں سے اشیائے تجارت لاتا، یمن جو گرم علاقہ تھا، اور گرمیوں میں شام كی طرف جو ٹھنڈا تھا خانہ كعبہ كے خدمت گزار ہونے كی وجہ سے تمام اہل عرب ان كی عزت كرتے تھے، اس لیے ان كے قافلے بلا روك ٹوك سفر كرتے تھے، اللہ تعالیٰ اس سورت میں قریش كو بتلا رہا ہے كہ تم جو گرمی، سردی میں دو سفر كرتے ہو تو ہمارے اس احسان كی وجہ سے كہ ہم نے تمہیں مكے میں امن عطا كیا ہے اور اہل عرب میں معزز بنایا ہوا ہے۔ اگر یہ چیز نہ ہوتی تو تمہارا سفر ممكن نہ ہوتا، اور اصحاب الفیل كو بھی ہم نے اسی لیے تباہ كیا ہے كہ تمہاری عزت بھی برقرار رہے اور تمہارے سفروں كا سلسلہ بھی، جس كے تم خوگر ہو، قائم رہے۔ اگر ابرہہ اپنے مذموم عزائم میں كامیاب ہو جاتا تو تمہاری عزت و وقار بھی ختم ہو جاتا اور سلسلۂ سفر بھی ختم ہو جاتا، اس لیے تمہیں چاہیے كہ صرف اسی بیت اللہ كے رب كی عبادت كرو عرب میں قتل وغارت عام تھی لیكن قریش مكہ كو حرم مكہ كی وجہ سے جو احترام حاصل تھا اس كی وجہ سے وہ ہر قسم کے خوف وخطر سے محفوظ تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں كہ وہ رب كعبہ جس نے انھیں بھوك میں كھلایا اور خوف میں نڈر ركھا، انھیں چاہیے كہ اس كی عبادت كریں اور اس كے ساتھ كسی كو شریك نہ ٹھہرائیں جو خدا كے حكم كی بجا آوری كرے گا وہ دنیا میں امن كے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی امن وامان سے رہے گا، جیسا كہ سورئہ النحل ۱۱۲ میں فرمایا: ﴿ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ اٰمِنَةً…﴾ ’’اللہ تعالیٰ ان بستی والوں كی مثال بیان فرماتا ہے، جو امن وامان كے ساتھ تھے، ہر جگہ سے بافراغت روزیاں كھچی چلی آتی تھیں پھر اس نے اللہ تعالیٰ كی نعمتوں كی ناشكری كی چنانچہ خدا تعالیٰ نے بھی انھیں بھوك اور خوف كا مزہ چكھا دیا، یہی ان كے كرتوت كا بدلہ تھا، ان كے پاس انھیں میں سے خدا كی طرف سے بھیجے ہوئے آئے لیكن انھوں نے ان کو جھٹلا دیا چنانچہ اس ظلم پر خدا كے عذابوں نے انھیں گرفتار كر لیا۔ الحمد للہ