اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ
پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا (١)
اس سورت كی ابتدائی پانچ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب آپ غار حرا میں مصروف عبادت تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی وحی كی ابتدا سچے خوابوں سے ہوئی۔ جو خواب آپ دیكھتے وہ صبح كی روشنی كی طرح سامنے آجاتا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم كو تنہائی اچھی لگنے لگی، آپ غار حرا میں جا كر عبادت كرتے اور كئی كئی راتیں وہاں گزار دیتے، پھر آتے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا توشہ لے كر چلے جاتے یہاں تك كہ آپ پر غار حرا میں وحی نازل ہوئی۔ وحی كا آغاز كیسے ہوا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس فرشتہ (جبرائیل) آیا اور كہنے لگا: ’’پڑھیے‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں اَن پڑھ ہوں۔‘‘ پھر دوبارہ اس نے مجھے زور سے بھینچا پھر چھوڑ دیا اور كہا ’’پڑھ‘‘ میں نے كہا كہ میں پڑھا ہوا نہیں۔ پھر فرشتے نے مجھے تیسری بار بھینچا اور چھوڑ كر كہا، اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ سے مَا لَمْ يَعْلَمْ تك پڑھا۔ آپ كانپتے ہوئے گھر آئے، اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے كہا: ’’مجھے اپنی جان كا خوف ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سارا واقعہ سنایا، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے كہا حضور! آپ خوش ہو جائیے اللہ كی قسم اللہ آپ كو ہرگز ضائع نہ كرے گا۔ نبوت سے پہلے آپ كا كردار: آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرابت داروں سے اچھا سلوك كرتے تھے۔ ہمیشہ سچ بولتے ناتوانوں كا بوجھ خود اٹھا لیتے، محروم لوگوں كو ضرورت كی اشیاء مہیا كرتے۔ مہمان نوازی كرتے اور حق پر دوسروں كی مدد كرتے تھے، پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ كو لے كر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل كے پاس لے آئیں جو دور جاہلیت میں عیسائی ہوگئے تھے۔ (كیونكہ اس وقت یہی دین حق تھا) وہ عربی لكھنا خوب جانتے تھے اور انجیل كا عربی زبان میں ترجمہ لكھا كرتے تھے، بوڑھے تھے اور آنكھیں جا چكی تھیں۔ ورقہ بن نوفل كا آپ صلی اللہ علیہ وسلم كو تسلی دینا: حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنے چچا سے كہا كہ اپنے بھتیجے كا واقعہ تو سنیے! چنانچہ نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو كچھ دیكھا تھا بیان كر دیا۔ وہ كہنے لگے یہی تو وہ راز دان فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ كے پاس بھی اللہ كا بھیجا ہوا آیا كرتا تھا۔ كاش میں اس وقت جوان ہوتا، كاش میں اس وقت زندہ ہوتا جبكہ آپ كو آپ كی قوم نكال دے گی۔ ہجرت كی بات پر آپ كا تعجب: آپ نے تعجب سے پوچھا كیا وہ مجھے نكال دیں گے۔ ورقہ كہنے لگے: ’’ہاں‘‘ كیونكہ جو چیز آپ لائے ہیں جو بھی وہ لایا اسے تكلیف ہی دی گئی اور اگر میں اس وقت تك زندہ رہا تو تمہاری بھر پور مدد كروں گا، اس كے تھوڑی مدت بعد ہی ورقہ فوت ہوگئے اور وحی كا آنا بھی موقوف رہا جس كی وجہ سے آپ غمگین رہا كرتے تھے۔ (بخاری: ۳، مسلم: ۱۶۰)