َالضُّحَىٰ
قسم ہے چاشت کے وقت کی (١)
پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے چاشت كے وقت كی قسم كھائی جب سورج بلند ہو چكا ہوتا ہے اور لوگ اپنے كام كاج میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ دوسری آیت میں رات كی كہ جب سب لوگ سو چكے ہوں اور تاریكی پوری طرح چھا چكی ہو۔ دونوں متضاد حالتوں كی قسم كھا كر فرمایا كہ آپ كو آپ كے پروردگار نے نہ چھوڑا ہے اور نہ آپ سے ناراض ہے۔ جس طرح مثال ہے كہ اگر دن كی روشنی مسلسل آدمی پر رہے تو وہ اُسے تھكا دے اس لیے ایك خاص وقت تك دن روشن رہنے كے بعد رات كا آنا ضروری ہے تاكہ اس میں انسان كو سكون ملے۔ اسی طرح وحی كے پے در پے آنے سے آپ كے اعصاب اس كو برداشت نہ كر سكیں گے۔ وحی كی حالت میں اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم كو لذت و سرور حاصل ہوتا تھا لیكن یہ وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے لیے اتنا اعصاب شكن اور تكلیف دہ ہوتا تھا كہ سردیوں میں بھی آپ كو پسینہ آ جاتا تھا۔ لہٰذا ضروری تھا كہ وحی كے بعد آپ كو آرام كا وقفہ دیا جائے اور یہ وقفہ ابتداً زیادہ تھا پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی طبیعت آہستہ آہستہ بار وحی كو برداشت كرنے كے قابل ہوتی گئی تو یہ وقفہ بھی كم ہوتا گیا۔ سورت كے نزول كا پس منظر: پہلی وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غار حرا میں نازل ہوئی جو سورة العلق كی ابتدائی پانچ آیات تھیں اس بار وحی كی كوفت كا یہ حال تھا كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر آ كر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا كو یہ واقعہ سنایا تو بتایا: ’’ اِنِّی خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ‘‘ كہ مجھے تو اپنی جان كا ڈر ہے اور لذت و سرور كا یہ حال تھا كہ اس واقعہ كے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت جبرائیل كی آمد كے منتظر رہتے تھے لیكن وحی كچھ عرصہ كے لیے بند ہو گئی یہ عرصہ كتنا تھا اس كے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ كم سے كم تین دن اور زیادہ سے زیادہ چھ ماہ (واللہ اعلم بالصواب) اس واقعہ كو فترة الوحی كہتے ہیں۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم كو خود بھی بعض دفعہ یہ خیال آنے لگتا كہ كہیں میرا پروردگار مجھ سے ناراض تو نہیں ہو گیا، اور كافر تو ایسے موقعہ كی تلاش میں رہتے تھے جس سے وہ اپنے اندر كا اُبال نكال سكیں۔ جندب بن سفیان فرماتے ہیں كہ: ایك دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كا مزاج ناساز ہوا اور دو تین راتیں نماز تہجد كے لیے اُٹھ نہ سكے۔ ایك عورت (ابو سفیان كی بہن اور ابو لہب كی بیوی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آئی اور كہنے لگی محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں سمجھتی ہوں كہ تیرے شیطان نے تجھے چھوڑ دیا ہے میں نے دو تین راتوں سے اسے تیرے پاس نہیں دیكھا‘‘ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ (بخاری: ۴۹۵۰) آخری دور ابتدائی دور سے بہتر ہے: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ كو ایک ایسی عظیم الشان خوشخبری دی کہ اس وقت اس كے پورے ہونے كے آثار دور دور تك نظر نہیں آتے تھے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم كو تسلی دی گئی كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم كفار مكہ كی ایذا رسانی اور ظلم وجور سے نہ گھبرائیں كیونكہ آپ كی زندگی كا ہر آنے والا دور اپنے پہلے دور سے بہتر ہوگا، رفتہ رفتہ اور مسلسل آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے عز و شرف میں ترقی ہوتی رہے گی۔ پھر یہ وعدہ صرف دنیا تك ہی محدود نہیں ہوگا بلكہ آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم كو جو بلند مقام عطا ہوگا وہ كائنات میں كسی دوسرے كو عطا نہیں ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ كے انعامات: آپ صلی اللہ علیہ وسلم كو اللہ تعالیٰ نے كیا كچھ دی اتھا اس كا احاطہ ہم نہیں كر سكتے۔ ہم تو یہ سوچنے پر مجبور ہیں كہ وہ كون سی عزو شرف كی بات تھی جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم كو عطا نہیں كی۔ صحابہ كرام كی ایسی جماعت جو آپ پر جان فدا كر دینے كو فخر محسوس كرتے تھے۔ آپ كو مسلمانوں كا غیر مشروط مطاع، معلم اور مز كی بنایا۔ اپنی كتب كا مفسر بنایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی كوششوں سے پورے عرب سے كفر و شرك كا استیصال ہو گیا۔ اسلام كا غلبہ ہوگیا۔ تینتیس سال كے قلیل عرصہ میں ایك وحشی اُجڈ اور ایك دوسرے كے خون كی پیاسی قوم كو دنیا بھر كی تہذیب و تمدن كی علمبردار قوم بنا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا تمدنی اخلاقی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی انقلاب بپا كیا جس كی مثال پوری دنیا كی تاریخ ميں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی یہ سب كچھ كیا تھا یہ اللہ كی رحمت اور عطا تھی۔ جس كے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا كہ ہم آپ كو اتنا كچھ عطا كریں گے كہ آپ خوش ہو جائیں گے۔