إِلَّا الَّذِينَ يَصِلُونَ إِلَىٰ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ أَوْ جَاءُوكُمْ حَصِرَتْ صُدُورُهُمْ أَن يُقَاتِلُوكُمْ أَوْ يُقَاتِلُوا قَوْمَهُمْ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ عَلَيْكُمْ فَلَقَاتَلُوكُمْ ۚ فَإِنِ اعْتَزَلُوكُمْ فَلَمْ يُقَاتِلُوكُمْ وَأَلْقَوْا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ عَلَيْهِمْ سَبِيلًا
سوائے ان کے جو اس قوم سے تعلق رکھتے ہوں جن سے تمہارا معاہدہ ہوچکا ہے یا جو تمہارے پاس اس حالت میں آئیں کہ تم سے جنگ کرنے سے بھی تنگ دل ہیں اور اپنی قوم سے بھی جنگ کرنے میں تنگ دل ہیں (١) اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو انہیں تم پر مسلط کردیتا اور تم سے یقیناً جنگ کرتے (٢) پس اگر یہ لوگ تم سے کنارہ کشی اختیار کرلیں اور تم سے لڑائی نہ کریں اور تمہاری جانب صلح کا پیغام ڈالیں (٣) تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ان پر کوئی راہ لڑائی کی نہیں کی۔
البتہ اس حکم سے دو قسم کے لوگ قتل کرنے سے مستثنیٰ ہیں ایک وہ جو کسی ایک قوم کے فرد یا اس کی پناہ میں ہیں جس قوم سے تمہارا معاہدہ ہے ۔ دوسرے وہ تو تمہارے پاس اس حال میں آتے ہیں کہ جن کے سینے اس بات سے تنگ ہیں کہ وہ اپنی قوم سے مل کر تم سے یا تم سے مل کراپنی قوم سے جنگ کریں۔ یعنی تمہاری حمایت میں لڑنا پسند کرتے ہیں نہ تمہاری مخالفت میں۔ اور یہ اللہ کا احسان ہے اگر ایسے لوگ مسلمانوں کے ساتھ لڑنے سے تنگی محسوس نہ کرتے اور اگر اللہ تعالیٰ ان کے دل میں اپنی قوم کی حمایت میں لڑنے کا خیال پیدا کردیتا، تو یقیناً وہ بھی تم سے لڑتے، لہٰذا جو منافقین یا دوسرے لوگ امن پسند ہے لڑائی سے گریز کرتے ہیں۔ تمہاری راہ میں حائل بھی نہیں ہوتے یا صلح پرآمادہ ہیں، تو ایسے لوگوں کے خلاف تمہیں بھی کوئی اقدام نہ کرنا چاہیے۔ اس کی مثال وہ جماعت بھی ہے جس کا تعلق بنی ہاشم سے تھا یہ جنگ بدر والے دن مشرکین کے ساتھ مل کر میدان میں تو آئے تھے لیکن ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑنا پسند نہیں کرتے تھے جیسے حضرت عباس رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ کے چچا تھے اور ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اور بظاہر کافروں کے کیمپ میں تھے۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے سے روک دیا اور انھیں صرف قیدی بنانے پر اکتفا کیا۔