عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ
وہ ترش رو ہوا اور منہ موڑ لیا۔
شان نزول: اس كی شان نزول میں تمام مفسرین كا اتفاق ہے كہ یہ آیت حضرت عبداللہ ابن ام مكتوم كے بارے میں نازل ہوئی۔ عبس سے مراد ناگواری كے اثرات: وتولی سے مراد ہے کہ بے توجہی سی برتی۔ امام ترمذی نے اس کا قصہ مختصراً یوں روایت كیا ہے كہ ایك دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی خدمت میں چند قریشی سردار بیٹھے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اسلام كی دعوت دے رہے تھے کہ اچانك حضرت ابن ام مكتوم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے یہ نابینا تھے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا كے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ ابتدائی اسلام لانے والوں میں سے تھے۔ انہوں نے آتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے كسی آیت كا مطلب پوچھا۔ جو لوگ آپ كی مجلس میں بیٹھے تھے انھیں وہ دیكھ نہیں سكتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كو ان كا آنا ناگوار محسوس ہوا اور اس ناگواری كے اثرات آپ كے چہرے پر بھی نمودار ہو گئے جس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ آپ سیّدنا عبداللہ كی طرف سے مطمئن تھے كہ انھیں بعد میں سمجھا لیں گے۔ سر دست اگر ان سرداروں میں سے كوئی ایك بھی اسلام كے قریب آ گیا تو اس سے اسلام كو خاصی تقویت پہنچ سكتی ہے۔ (ترمذی ابواب التفسیر)