وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا
اور تم نہ چاہو گے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی چاہے (١) بیشک اللہ تعالیٰ علم والا با حکمت ہے۔
یعنی تم میں سے كوئی اس بات پر قادر نہیں كہ وہ اپنے آپ كو ہدایت كی راہ پر لگا لے۔ اپنے لیے كسی نفع كو جاری كر لے، ہاں اگر اللہ چاہے تو ایسا ممكن ہے، اس كی مشیئت كے بغیر تم كچھ نہیں كر سكتے، البتہ صحیح قصد ونیت پر وہ اجر ضرور عطا فرماتا ہے، جیسے حدیث میں ہے: ’’اعمال كا دارومدار نیتوں پر ہے، ہر آدمی كے لیے وہی ہے جس كی وہ نیت كرے۔ (بخاری: ۱) اللہ سب كچھ جانتا ہے: چونكہ وہ علیم وحكیم ہے۔ اس لیے اس كے ہر كام میں حكمت ہوتی ہے، بنا بریں ہدایت اور گمراہی كے فیصلے بھی یوں ہی الل ٹپ نہیں ہو جاتے۔ بلكہ جس كو ہدایت دی جاتی ہے وہ واقعی اس كا مستحق ہوتا ہے۔ اور جس كے حصے میں گمراہی آتی ہے وہ حقیقتاً اسی لائق ہوتا ہے۔ ظالموں كے لیے عذاب تیار رہے: یعنی جو انسان دنیا میں اپنے اختیار كا صحیح استعمال كرے گا اور اپنے آپ كو اللہ كا تابع فرمان ركھے گا۔ اسے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے جنت میں داخل كرے گا، اور جو سركش اور نافرمان بن كر زندگی گزارے گا۔ اسے مرنے كے ساتھ ہی دكھ دینے والے عذاب سے دو چار كر دے گا۔ الحمد للہ سورئہ الدہر كی تفسیر مكمل ہوئی۔ ہواؤں كی اقسام اور صفات: كُرہ زمین كی سطح پر اللہ تعالیٰ نے ہوا كا ایك كُرہ بنا دیا ہے۔ جو ہر خشكی كے جاندار كے لیے پانی سے بھی زیادہ ضروری ہے، پانی كے بغیر تو انسان ایك آدھ دن زندہ رہ سكتا ہے، مگر ہوا كے بغیر دو چار منٹ بھی زندہ نہیں رہ سكتا۔ ہواؤں كی بہت سی اقسام ہیں باد نسیم اور باد صبا كا انسان كی طبیعت پر بڑا اچھا اثر پڑتا ہے، جب كہ باد صرصر اور باد سموم سخت نقصان دہ ہیں۔ كچھ ہوائیں مشرق سے مغرب كو چلتی ہیں اور كچھ مغرب سے مشرق كو پھر كچھ ہوائیں نرم رفتار سے دھیرے دھیرے چلتی ہیں۔ كبھی ایك دم حبس ہو جاتا ہے ہوا چلنے سے رُك جاتی ہے تو انسان كا دم گھٹنے لگتا ہے۔ كبھی یہ ہوائیں آندھی اور جھكڑ كی صورت اختیار كر كے درختوں اور مكانات كو تہس نہس كر ڈالتی ہیں۔ غرض ہواؤں كا ایك الگ عالم ہے، جن میں ان مختلف اقسام كی موجودگی كے باوجود ایك نظم وضبط ہے۔ یہی ہوائیں گرمی، سردی اور موسم كی تبدیلی میں موثر كردار ادا كرتی ہیں، كچھ ہوائیں بادلوں كو اكٹھا كرتی اور جوڑ دیتی ہیں اور كچھ دوسری جڑے ہوئے بادلوں كو یك دم پھاڑ دیتی ہیں۔