وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلًا
اور جو کچھ وہ کہیں تو سہتا رہ اور وضعداری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ رہ۔
یعنی اس كا مطلب یہ نہیں كہ ان سے قطع تعلق كر لیجئے بلكہ یہ ہے كہ جہاں تك ان كے طعن وتشنیع، طنز وتمسخر اور تلخ كلامی كا تعلق ہے تو ان كی یہ باتیں برداشت كیجئے اور انھیں كچھ جواب نہ دیجئے اور جہاں تك ان كی ہدایت اور خیر خواہی كا تعلق ہے۔ تو ایسا كوئی موقعہ آپ كو فروگزاشت نہ كرنا چاہیے بلكہ ایسے موقعہ كی جستجو میں رہنا چاہیے اور ہر وقت ان كا بھلا ہی سوچنا چاہیے اور انھیں اللہ كی طرف دعوت دیتے رہنا چاہیے۔ مترفین كا كردار: معلوم ہوا كہ انبیاء كی دعوت كو جھٹلانے والے عموماً یہی كھاتے پیتے اور خوش حال لوگ ہی ہوا كرتے ہیں۔ انھیں قرآن كریم میں بعض دوسرے مقامات پر مترفین كے لفظ سے ذكر كیا گیا ہے۔ ان لوگوں كا چونكہ معاشرہ میں اپنا ایك حلقہ اثر اور مخصوص مقام ہوتا ہے۔ اور نبی كی دعوت قبول كر لینے سے انھیں یہ مقام چھن جانے كا خطرہ ہوتا ہے۔ لہٰذا یہی لوگ انبیاء كی مخالفت میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں كی مخالفت كی پروا نہ كیجئے ان سے میں نمٹ لوں گا۔ مگر ابھی كچھ وقت انھیں مخالفت كا موقع دیا جائے گا جس میں كئی طرح كی مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔