سورة النسآء - آیت 57

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۖ لَّهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَنُدْخِلُهُمْ ظِلًّا ظَلِيلًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور جو لوگ ایمان لائے اور شائستہ اعمال کئے (١) ہم عنقریب انہیں ان جنتوں میں لے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جن میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، ان کے لئے وہاں صاف ستھری بیویاں ہوں گی اور ہم انہیں گھنی چھاؤں (اور پوری راحت) میں لے جائیں گے (٢)۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں۔ (۱) اللہ کی ہدایت کو ماننے والے۔ (۲) اور اس کا انکار کرنے والے۔ اس آیت میں کفار کے مقابلے میں ماننے والوں کے لیے ابدی نعمتوں کا ذکر کیا جارہا ہے۔ لیکن وہ اہل ایمان جو اعمال صالحہ کی دولت سے مالا مال ہونگے، قرآن پاک میں ہر جگہ ایمان کے ساتھ عمل صالح کا ذکر کرکے واضح کردیا کہ ان کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے، ایمان، عمل صالح کے بغیر ایسے ہی ہے جیسے پھول خوشبو کے بغیر، درخت ہو لیکن بے ثمر ۔ صحابہ کرام نے اس نکتہ کو سمجھ لیا تھا اس لیے ان کی زندگیاں اعمال صالحہ سے مالا مال تھیں، اُس دور میں بے عملی یا بدعملی کے ساتھ ایمان کا تصور ہی نہیں تھا۔ اس کے برعکس آج کے دور میں ایمان صرف زبانی جمع خرچ کا نام رہ گیا ہے اور ایمان کے دعوے دار کا دامن عمل صالح سے خالی ہے۔ اور اگر کوئی شخص ایسے اعمال کرتا ہے۔ مثلاً راست بازی، امانت و دیانت، ہمدردی و غمگساری مگرایمان کی دولت سے محروم ہے تو اس کے یہ اعمال دنیا میں تو اس کی شہرت، عزت اور نیک نامی کا ذریعہ ہوسکتے ہیں۔ مگر آخرت میں اللہ کے ہاں ان کی کوئی قدرو قیمت نہ ہوگی۔ اس لیے کہ ان کا سرچشمہ ایمان نہیں بلکہ دنیاوی مفادات اور اخلاق و عادات ان کی بنیاد ہے۔ گھنی، گہری عمدہ چھاؤں جسے ترجمہ میں پوری راحت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور ان کے لیے پاکیزہ بیویاں ہوں گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جنت میں ایک درخت ہے جس کا سایہ اتنا ہے کہ ایک سوار سو سال میں بھی اسے طے نہیں کرسکے گا۔ یہ شجرۃ الخلد ہے ۔‘‘ (بخاری: ۳۲۵۱، مسلم: ۲۸۲۶)