رَّبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَن دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا تَبَارًا
اے میرے پروردگار! تو مجھے اور میرے ماں باپ اور جو بھی ایماندار ہو کر میرے گھر میں آئے اور تمام مومن مردوں اور کل ایماندار عورتوں کو بخش دے (١) اور کافروں کو سوائے بربادی کے اور کسی بات میں نہ بڑھا (٢)
اپنے مومنوں كے حق میں دعائے خیر: اسی دعا كا دوسرا حصہ جو اپنے لیے اور جملہ مومنین كے لیے ہے۔ اس میں خاصی نرمی، لچك اور وسعت قلبی پائی جاتی ہے یعنی سب سے پہلے تو آپ نے اپنے حق میں اپنی تقصیرات سے بخشش كی دعا فرمائی پھر اپنے والدین كے لیے، پھر ان لوگوں كے لیے جو ایمان لا كر آپ كے گھر یا مسجد یا كشتی میں داخل ہو جائیں۔ پھر ان مومن مردوں اور عورتوں كے لیے بھی جو اس دعا كے بعد یا آپ كے بعد ایمان لائیں گے۔ مسند احمد میں روایت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مومن ہی كے ساتھ اٹھ، بیٹھ، رہ سہہ اور صرف پرہیزگار ہی تیرا كھانا كھائیں۔ (مسند احمد: ۳/ ۳۸، ابوداود: ۴۸۳۲، ترمذی: ۲۳۹۵) اسی لیے مستحب ہے كہ ہر شخص اپنی دعا میں دوسرے مومنوں كو بھی شامل ركھے تاكہ حضرت نوح علیہ السلام كی اقتدا بھی ہو اور ان حدیثوں پر بھی عمل ہو جائے جو اس بارے میں ہیں پھر دعا كے خاتمے پر كہتے ہیں كہ باری تعالیٰ ان كافروں كو تو تباہی و بربادی، ہلاكت ونقصان میں ہی بڑھاتا رہ، دنیا وآخرت میں بردباد ہی رہیں۔ الحمد للہ سورئہ نوح كی تفسیر مكمل ہوئی۔