قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا
(نوح (علیہ السلام) نے) کہا اے میرے پروردگار! میں نے اپنی قوم کو رات دن تیری طرف بلایا ہے (١)۔
نو سو سال صدا بصحراء كے بعد بھی ایك پیغمبرانہ كوشش: ساڑھے نو سو سال تك كی لمبی مدت میں كس كس طرح حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم كو رشد وہدایت كی طرف بلایا۔ قوم نے كس كس طرح اعراض كیا، كیسی كیسی اذیتیں خدا كے پیارے پیغمبر كو پہنچائیں اور كس طرح اپنی ضد پر اڑے رہے۔ حضرت نوح علیہ السلام بطور شكایت كے جناب باری تعالیٰ میں عرض كرتے ہیں كہ خدایا! میں نے تیرے حكم كی پوری طرح سر گرمی سے تعمیل كی۔ بغیر كسی كوتاہی كے دن رات میں نے تیرا پیغام اپنی قوم كو پہنچایا۔ لیكن اسے كیا كروں كہ جس دل سوزی سے میں انھیں نیكی كی طرف بلاتا رہا، وہ اسی سختی سے مجھ سے بھاگتے رہے۔ حق سے روگردانی كرتے رہے یہاں تك كہ میں نے ان سے كہا كہ وہ اللہ پر ایمان لے آئیں اور اللہ سے اپنے گناہوں كی معافی طلب كریں تو اللہ یقینا ان كے گناہ معاف كر دے گا۔ لیكن انھوں نے میری بات كو سننا بھی گوارا نہ كیا، بلكہ اپنے كانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور دوسرا كام وہ یہ كرتے ہیں كہ جہاں كہیں مجھے دیكھتے ہیں تو اپنا منہ ڈھانپ لیتے ہیں كہ میں انھیں دیكھ كر بلا نہ لوں یا پھر انھیں مجھ سے اتنی نفرت ہے كہ وہ میری شكل دیكھنا بھی پسند نہیں كرتے اور اپنے منہ پر كپڑا ڈال لیتے ہیں یہ ہے ان كی ضد اور نفرت كی انتہا، انھوں نے تیرے احكام كے سامنے اكڑ جانے كی حد كر دی ہے۔