أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُزَكُّونَ أَنفُسَهُم ۚ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا
کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا جو اپنی پاکیزگی اور ستائش خود کرتے ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے پاکیزہ کرتا ہے کسی پر ایک دھاگے کے برابر ظلم نہ کیا جائے گا (١)۔
یہود اپنے آپ کو انبیاء کی اولاد اور اللہ کے چہیتے کہتے تھے اس لیے اپنے آپ کو پاکیزہ سمجھتے تھے۔ اور عیسائی قوم نے یہ عقیدہ گھڑلیا تھا کہ عیسائیوں کے گناہ تو حضرت عیسیٰ نے اپنی گردن پر اٹھائے اور سولی چڑھ گئے ۔ اس طرح ان کی سب امت پاک ہوگئی اور جنت کی مستحق ٹھہری۔ اسی طرح کچھ لوگ اپنے آپ کو سیّداور آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری پشت ہی پاک ہے۔ یعنی پشت در پشت پاک ہیں پھر کچھ لوگوں نے اس دنیا میں بہشتی دروازے بنا رکھے ہیں کہ جو شخص عرس کے دن اُس دروازہ سے گزرجائے گا مرنے کے بعد سیدھا جنت میں جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اپنے منہ میاں مٹھو بننے سے کچھ نہیں بنتا پاکیزہ تو وہ ہے جو اپنے آپ کو گناہوں سے پاک رکھے، اور اللہ اُسے پاکیزہ قراردے۔ شان نزول: یہودی اپنے چھوٹے بچوں کو لے آتے اور ان سے نماز پڑھواتے اور کہتے کہ یہ پاک ہیں اور ہماری طرف سے ہمارے گناہوں کا کفارہ ہے۔